Sunday 27 August 2023

Hadith No -17- Kitaab-ul-Eeman  (کتاب الاایمان) Bukhaari Shareef (Ahaadees Mubaarkah)

 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ " .

Narrated Anas: The Prophet said, "Love for the Ansar is a sign of faith and hatred for the Ansar is a sign of hypocrisy."

Who is Ansar?

The Ansar or Ansari (Arabic: الأنصار, romanized: al-Anṣār, lit. 'The Helpers’ or ‘Those who bring victory') are the local inhabitants of Medina who, in Islamic tradition, took the Islamic prophet Muhammad and his followers (the Muhajirun) into their homes when they emigrated from Mecca during the hijra. They also took Islam as their religion.[citation needed]


They belonged to the tribes of Banu Khazraj and Banu Aus.

´ہم سے اس حدیث کو ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، انہیں عبداللہ بن عبداللہ بن جبر نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کو سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے انصار سے محبت کرنے پر ابھارا، اور انصار کی خوبیوں کے پیشِ نظر اسے (انصار سے محبت کو) ایمان کی علامت قرار دیا اس لیے کہ انھوں نے آپ کی خدمت میں سبقت کی تھی اور اسی طرح دینِ اسلام کی خدمت اور اس کے غلبے اور مسلمانوں کو پناہ دینے والی صفات جو ان میں تھیں، اسلام کے اہم معاملات کو کماحقہ قائم کرنے اور آپ ﷺ سے ان کی محبت اور ان سے آپ ﷺ کی محبت، آپ ﷺ کے لیے ان کا اپنا مال اور جان کا نذرانہ پیش کرنا اور اسلام کی خاطر قربانی دیتے ہوئے ان کا جہاد کرنا اور اسلام کی خاطر دوسرے لوگوں سے دشمنیاں مول لینے کی وجہ سے ان سے محبت کرنے کو کہا گیا ہے۔ بلکہ آپ ﷺ نے صراحت فرمائی کہ ان سے بُغض اسی شخص سے تصور کیا جاسکتا ہے جو اللہ، آخرت کے دن پر ایمان نہ رکھتا ہو اور نفاق میں ڈوبا ہوا ہو۔

شرح...: انصار سے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے والے مراد ہیں اور وہ اوس و خزرج والے تھے۔
اس سے پہلے انہیں بنو قیلہ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ قیلہ دونوں قبیلوں کی وہ ماں تھی جہاں جاکر ان دونوں کی نسل جمع ہوجاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام انصار رکھا اور یہی ان کی علامت اور نشانی بن گیا یہ نام ان کی اولاد، ان کے حلیف اور ان کے غلاموں پر بھی بولا جاتا ہے۔
وہ اس بلند و بالا منقبت اور فضیلت کے اس لیے مستحق ٹھہرے کہ دوسرے قبائل کی بجائے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو جگہ دی، ان کے امور کے لیے کھڑے ہوئے، اپنا مال اور جان ان پر نچھاور کردی اور بہت سے معاملات میں انہیں اپنے آپ پر ترجیح دی۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی مدح کی ہے۔ فرمایا:
{وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوْتُوا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَّمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَأُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o} [الحشر: ۹]
'' (اور مال فے ان) لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ میں) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے، اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تشویش نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو۔ اور جو کوئی اپنے نفس کی بخیلی سے بچالیا گیا پس ایسے لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔''
یعنی یہ انصار، مہاجرین سے پیار کرتے ہیں اور جو ان کو ملا اس پر حسد نہیں کیا بلکہ اپنی ضرورت کے باوجود انہیں اپنے آپ پر ترجیح دی اور اپنے مال اور گھر ان کے سامنے رکھ دیے۔ اسی لیے انصار کے ساتھ محبت کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے حتیٰ کہ اسے ایمان کی نشانی قرار دیا گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( آیَۃُ الْاِیْمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ۔ ))1
'' ایمان کی نشانی انصار کی محبت ہے۔ ''
حدیث میں ان کی فضیلت کو اجاگر اور ان کے فعل کی عمدگی پر متنبہ کیا گیا ہے۔ گو مذکورہ فضیلت میں دیگر صحابہ بھی شریک ہیں مگر ہر ایک اپنے درجہ اور رتبہ کے مطابق ہے مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث مروی ہے، کہتے ہیں: '' اس ذات کی قسم! جس نے دانے اور روح کو پیدا کیا، بے شک امی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف عہد کیا کہ مجھ سے محبت صرف مومن ہی کرتا ہے اور مجھ سے بغض صرف منافق ہی رکھتا ہے۔ '' 2
یہ بات تمام صحابہ کے بارے میں جاری ہے، کیونکہ عزت و شرف میں سب مشترک ہیں۔ جس آدمی نے انصار کا مرتبہ اور ان کا دین اسلام کی نصرت کرنا، اسلام کے لیے ایثار کرنا، سب لوگوں سے دشمنی اور جنگ مول لینا، نبی علیہ السلام سے پیار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے محبت کرنا، جس نے بھی ان امور کو جان لیا اور پھر ان امور کی وجہ سے خود بھی ان سے محبت شروع کردی تو یہ ایسے انسان کے ایمان کے صحیح اور اسلام میں سچے ہونے کی علامت ہے کیونکہ ایسا شخص اسلام کے غلبہ کو پسند کرتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں کو بجا لانے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔

مدینہ منورہ کے وہ مسلمان جنھوں نے ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ اور مکہ سے آنے والے مسلمان مہاجرین کی مدد کی۔ انصار و مہاجرین کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور لوگوں کو ان کے اتباع کی تلقین کی گئی ہے۔ انصار جمع ہے ناصر و نصیر کی۔ مددگار۔ قرآن مجید میں جہاں مہاجرین و انصار کا ذکر آیا ہے وہاں انصار سے مراد انصار مدینہ ہیں جو نبی کریم ﷺ کی نصرت کے بدولت اس لقب سے سرفراز کیے گئے۔ مدنی زندگی میں اگرچہ مسلمانوں کی یہ دو تقسیمیں تھیں۔ مگر رسول اللہ نے ابتدا ہی سے ان میں بھائی چارہ کرا دیا تھا۔ غزوہ بدر سے پہلے جب حضور نے صحابہ کرام کو مشورے کے لے جمع کیا تو مہاجرین نے جان نثارانہ تقریریں کیں۔ اس کے بعد حضور نے انصار کی طرف دیکھا۔ کیونکہ ان سے معاہدہ تھا کہ وہ صرف اس وقت تلواریں اٹھائیں گے جب دشمن مدینہ پر چڑھ آئیں گے۔ سعد بن عبادہ سردار بنو خزرج نے کہا کہ آپ فرمائیں تو ہم سمندر میں کود پڑیں۔ مقداد نے کہا کہ ہم حضرت موسی کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے آپ اور آپ کاخدا لڑیں۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم تو آپ کے داہنے سے، بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے۔ انصار کا تعلق ازد کے دو اہم قبائل بنو خزرج اور بنو اوس سے تھا۔

No comments:

Post a Comment

Thanks for Visting Need Your Views...!!!