Tuesday 28 June 2016

والمحصنات- ٥-پانچویں پارے کا خلاصہ


لا يحب اللہ- ٦-چھٹے پارے کا خلاصہ


واذا سمعوا- ٧-ساتویں پارے کا خلاصہ


ولو اننا- ٨-آٹھویں پارے کا خلاصہ




قریش مکہ کا کہنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرنے کے بعد زندہ ہونے کا جو دعویٰ کرتے ہیں اس کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لئے عرب کے بڑے دادا قُصَی (جوکہ نیک اور محترم شخصیت تھے) کو زندہ کرکے دکھا دیں، وہ اگر آپ کی تصدیق کردیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا اگر ہم ان پر فرشتے نازل کردیں جو ان سے باتیں کرنے لگیں اور آج تک مرنے والی ہر چیز کو زندہ کرکے ان کے سامنے اکٹھا کردیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ صرف آپ ہی کی مخالفت نہیں ہورہی ہے بلکہ آپ سے پہلے انبیاءعلیہم السلام کو بھی ایسی ہی صورتحال سے سابقہ پڑتا رہا ہے۔ شیطان کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ہر نبی کے مخالفین ایسے ہی بنا سنوار کر دھوکہ دینے کے لئے ہر دور میں اعتراضات کرتے رہے ہیں مگر ایسی باتوں سے بے ایمان، منکرین آخرت ہی متاثر ہوتے ہیں۔ اللہ اگر چاہتے تو یہ ایسی نازیبا حرکتیں نہ کرتے۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر اپنے کام میں لگے رہئے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ جب اللہ نے واضح کتاب نازل فرمادی تو میں فیصلہ کرنے کے لئے کسی اور کو کیوں تلاش کروں؟ تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف کی آئینہ دار ہیں انہیں کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ لوگوں کی بے دلیل باتوں کو مان کر انسان گمراہ ہوسکتاہے، اللہ ہدایت یافتہ اور گمراہوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ مردار اور ذبیحہ میں فرق کرنے پر مشرکین کہتے تھے کہ اللہ کا مارا ہوا کھاتے نہیں ہو اور اپنا مارا ہوا کھالیتے ہو۔ قرآن کریم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ شیطان کے ایجنٹ کٹ حجتی کے لئے اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے، لہٰذا مردار جانور کا کھانا گناہ ہے جبکہ اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہوا جانور کھانا تمہارے ایمان کا تقاضا ہے۔ اگر ان کی باتوں سے متاثر ہوگئے تو تم بھی مشرکین کے زمرے میں شمار کئے جاﺅگے۔ جس طرح مردہ اور زندہ برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے والے اور ایمان کی روشنی میں چلنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ جب انہیں کوئی آیت سنائی جائے تو اسے ماننے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ان آیتوں کی وحی اللہ ہم پر کیوں نہیں اتارتا؟ اللہ بہتر جانتے ہیں کہ کس پر وحی اتارنی ہے کس پر نہیں۔ مجرموں کو ان کے جرائم کی وجہ سے ذلت ورسوائی اور عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسے اللہ ہدایت دینا چاہیں اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں اور جس کی گمراہی کا فیصلہ کریں اس کا سینہ تنگ کردیتے ہیں جیسے کوئی شخص بلندی پر چڑھ رہا ہو۔
بلندی پر چڑھتے ہوئے سینہ تنگ ہونے کی مثال اعجازِ قرآنی کی معرکة الآراءمثال شمار ہوتی ہے۔ اس لئے کہ طب جدید کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دَم گھٹنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ آج سے سوا چودہ سو سال پہلے اس سائنسی حقیقت کی طرف اشارہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تمام جنات و انسانوں سے قیامت کے دن باز پرس کی جائے گی اور ہر ایک کو احتساب کے عمل سے گزرنا ہوگا جبکہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں کی طرح جنات بھی قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کے پابند ہیں، پھر یہ بتایا کہ مجرموں کی گرفت کے لئے اللہ کا ضابطہ ہے کہ ظالم کی بے خبری میں گرفت نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے مستغنی اور رحیم ذات ہے۔ وہ اگر انسانوں کو ختم کرکے کسی دوسری قوم کو لانا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر کھیتیوں اور جانوروں میں مشرکانہ رسوم و رواج کی مذمت کرتے ہوئے اسے شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ قدرت خداوندی کا بیان ہے کہ اللہ زمین سے کیسے کیسے باغات پیدا کرتا ہے، جن میں سہارے کی محتاج بیلیں اور بغیر سہارے کے پروان چڑھنے والے پودے ہوتے ہیں۔ کھجوریں، مختلف ذائقہ والے ملتے جلتے اور غیر متشابہ پھل ہوتے ہیں۔ یہ سب انسانی خوراک اور صدقہ و خیرات کے لئے اللہ نے پیدا کئے ہیں۔ ان میں اسراف نہ کیا جائے۔ چھوٹے بڑے جانور بھی کھانے کے لئے اللہ نے پیدا کئے۔ ان کے بارے میں شیطانی تعلیمات کی پیروی نہ کریں۔ نر اور مادہ کو شمار کرکے عام طور پر آٹھ قسم کے پالتو جانور ہیں۔ بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ۔ اللہ نے ان میں سے کسی کو حرام قرار نہیں دیا تو تم لوگ ان کے نر یا مادہ یا ان کے حمل کو حرام کیوں کرتے ہو؟ مشرک کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی اجازت سے شرک کرتے ہیں۔ کیا یہ اپنے دعوی پر کوئی دلیل یا دست آویز پیش کرسکتے ہیں؟ اس کے بعد تمام انبیاءعلیہم السلام کا دس نکاتی مشترکہ پروگرام پیش کیا جو حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے۔ اللہ کی عبادت، والدین کے ساتھ حسن سلوک، تنگی کے خوف سے اولاد کے قتل سے گریز، برائی کے کاموں سے پرہیز، بے گناہ کے قتل سے بچنا، یتیم کے مال کو ناجائز استعمال نہ کرنا، ناپ تول میں کمی نہ کرنا، قول و فعل میں انصاف کے تقاضے پورے کرنا، اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرنا اور صراط مستقیم کی پیروی کرنا پھر موسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور ان کی کتاب کا تذکرہ پھر نزولِ قرآن کی بشارت کہ اس میں برکت بھی ہے، رحمت بھی اور ہدایت بھی۔ پھر دین میں تفرقہ اور دھڑے بندی کرنے والوں کی مذمت، پھر امت محمدیہ کی فضیلت کہ نیکی پر دس گنا اجر اور گناہ پر ایک سے زیادہ کی سزا نہیں ملے گی۔ محمدی تعلیمات کے ملت ابراہیمی کے عین مطابق ہونے کا اعلان۔ ابراہیمی طرز زندگی کی وضاحت کہ تمام بدنی و مالی عبادت اور جینا اور مرنا بھی اللہ ہی کے لئے ہے۔ ”جو کرے گا وہی بھرے گا“ کا ضابطہ اور سورت کے آخر میں امتحان کے نقطہ نظر سے انسانوں میں فرقِ مراتب اور زمین کی خلافت کا استحقاق اور اللہ کے سریع العقاب ہونے کی دھمکی کے ساتھ ساتھ غفور رحیم ہونے کی خوشخبری بھی شامل ہے۔

سورة الاعراف



جنت اور جہنم کے درمیان واقع ایک چبوترا ہے، جس پر ان لوگوں کو عارضی طور پر ٹھہرایا جائے گا، جن کی حسنات و سیئات برابر ہوں گی۔ اعراف کا تذکرہ اس سورت میں موجود ہے اس لئے اسی نام سے پوری سورت کو موسوم کردیا گیا۔
یہ سورت دو سو چھ آیتوں اور چوبیس رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ ایک طویل مکی سورت ہے جو تقریباً سوا پارہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے پہلی سورة الانعام کا مرکزی مضمون ”توحید“ تھا اور اس سورت کا مرکزی مضمون ”رسالت“ ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنت و جہنم اور قیامت کے موضوع پر بھی گفتگو موجود ہے۔ سورت کی ابتداءمیں قرآن کریم کی حقانیت کو ایک انوکھے انداز میں بیان کیا گیا ہے، جس میں ایک طرف حضور علیہ السلام کی ہمت افزائی ہے تو دوسری طرف آپ کی تسلی کے لئے ”وحی الٰہی“ کے منکرین کا انجام ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر نازل شدہ قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں تو آپ دل برداشتہ نہ ہوں۔ یہ لوگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر رہیں گے کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسی قومیں گزری ہیں جنہیں ”وحی الٰہی“ کے انکار پر پلک جھپکتے میں نیست و نابود کردیا گیا۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ آج کے دور کا فرقہ بندیوں، پارٹی بندیوں اور جنگ و جدل کا شکار ہونے والا انسان درحقیقت ایک ہی باپ کی صلب سے پیدا ہونے والا اور ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا ہے۔ یہ سب کالے اور گورے، امیر و غریب، شاہ و گدا ایک ہی گھرانے کے افراد اور ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور انہیں باہمی افتراق و نزاع کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔ خالقِ انسان کی نگاہ میں اس انسان کی قدر و منزلت کیا ہے؟ اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانیت کے جدامجد آدم علیہ السلام کو مسجود ملائکہ بناکر اعزاز و اکرام کے ساتھ اس کے اصلی گھر جنت میں بھیج دیا اور شیطان کی ازلی دشمنی بتانے کے لئے شجر ممنوعہ کو استعمال کرواکر جدوجہد اور معرک حق و باطل کے طویل اور صبر آزما امتحان کے لئے اسے زمین پر اتاردیا۔ چار مرتبہ اس انسان کو یا بنی آدم ”اے آدم کی اولاد“ کہہ کر پکارا۔ یہ نداءاس سورت کے ساتھ خاص ہے۔ شیطان کے شر سے بچنے کے لئے انتہائی پرحکمت خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”اے بنی آدم! جس شیطان نے تمہارے والدین کا لباس اترواکر انہیں جنت سے نکلوادیا تھا کہیں تمہیں بھی فتنہ میں مبتلا کرکے جنت سے محروم نہ کردے۔“ اس کے بعد قیامت کے دن کی منظر کشی کرتے ہوئے اصحاب الجنة، اصحاب النار اور اصحاب العراف کے نام سے تین گروہ ذکر کئے۔ اس گروہ کا تذکرہ صرف اسی سورت میں ہے۔ اس کے بعد وہ منظر پیش کیا گیا، جس میں جنت والے، جہنم والوں کا ویسے ہی مذاق اڑائیں گے جیسے وہ لوگ دنیا میں ان کی نیکی اور صلاح و تقویٰ پر مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ کیسا منظر ہوگا جب جنت والے انعامات اور عیش و عشرت کے مزے لے رہے ہوں گے اور جہنم والے عذاب کی اذیت و کربناکی میں مبتلا ہوں گے اور جنتیوں سے کھانے کے ایک نوالہ اور پانی کے دو گھونٹ بھیک مانگ رہے ہوں گے اور اصحاب العراف اپنی فصیل سے دائیں بائیں جھانک کر جنت و جہنم والوں میں اپنے جاننے والوں کو پہچانیں گے اور ان سے گفتگو کریں گے۔ اہل جنت کے چہرے روشن اور چمکدار ہوں گے جبکہ اہل جہنم بدشکل، سیاہ اور ذلت و رسوائی کے عالم میں ہوں گے۔ اسی اثناءمیں اللہ کا منادی آواز لگائے گا:”اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ نیکیوں کا بدلہ جنت ہے جو صلحاءکو مل گئی اور اللہ کے راستہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے اور من مانے طریقہ پر اللہ کے احکام کو اپنی خواہشات کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے ظالم اور منکرین آخرت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب کا طوق ان کے گلے میں ڈالا گیا“۔ اس کے بعد آسمان و زمین کے پیدا کرنے، دن رات کے آنے جانے، ہواﺅں کے چلنے اور بارش کے برسنے اور درختوں اور پودوں کے زمین سے نکلنے میں غور و خوض کرنے کی دعوت دے کر پہلے انبیاءعلیہم السلام کا طویل تذکرہ شروع کردیا۔
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی۔ قوم نے انہیں گمراہ قرار دے کر ان کا مذاق اڑایا۔ ان کی رسالت کا انکار کیا، جس پر اللہ نے پانی کا عذاب مسلط کرکے انہیں ہلاک کردیا اور اپنے نبی کو کشتی کے اندر بچالیا۔ ہود علیہ السلام کا تذکرہ کہ انہوں نے قوم عاد کو دعوت توحید دی انہوں نے ہود علیہ السلام کو بے وقوف اور ناسمجھ قرار دے کر انکار کیا۔ اللہ نے ان پر آندھی اور طوفان کا عذاب مسلط کرکے ہلاک کردیا اور اپنے نبی اور ان کے متبعین کو بچالیا۔ پھر قوم ثمود کا تذکرہ، صالح علیہ السلام نے انہیں دعوت توحید دی۔ انہوں نے انکار کیا اور بیجا مطالبے شروع کردیئے۔ کہنے لگے کہ پہاڑ سے اونٹنی پیدا کرکے دکھاﺅ جو نکلتے ہی بچہ جنے۔ جب اونٹنی معجزانہ طریقہ پر ظاہر ہوگئی تو انہوں نے اسے قتل کرکے اپنے اوپر عذاب مسلط کرلیا۔ ان کی بستی پر ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ ان کا نام و نشان مٹ کر رہ گیا۔
پھر قوم لوط اور ان کی بے راہ روی کا تذکرہ۔ لوط علیہ السلام نے انہیں بدفعلی جیسے گھناﺅنے جرم سے منع کیا تو وہ ان کا مذاق اڑانے لگے کہ تم بہت پاکباز بنتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ نے ان پر پتھروں کی بارش کرکے انہیں تباہ کردیا۔
پھر قوم مدین کا تذکرہ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور تجارت میں بددیانتی سے منع کرکے ناپ تول پورا کرنے کی تلقین فرمائی اور انہیں راہ گیر مسافروں کو ڈرانے دھمکانے سے باز رہنے کا حکم دیا، جس پر وہ لوگ بگڑگئے اور حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت پر اتر آئے۔ انہوں نے فرمایا کہ میری قوم تمہارے دو گروہ بن چکے ۔ ایک ایمان والا اور دوسرا کفر والا۔ لہٰذا اپنے انجام کا انتظار کرو عنقریب ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ فیصلہ کردیں گے۔

قال الملاء- ٩.نویں پارے کا خلاصہ





آٹھویں پارے کے آخر میں حضرت شعیب علیہ السلام کا یہ مقولہ تھا کہ آسمانی نظام کو تسلیم کرنے والی اور انکار کرنے والی مو من و منکر دو جماعتیں بن چکی ہیں۔ اب خدائی فیصلہ کا انتظار کرو۔ نویں پارہ کی ابتداءمیں ان کی قوم کے سرداروں کی دھمکی مذکور ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی اپنے خیالات سے تائب ہوکر اگر ہمارے طریقہ پر نہ لوٹے تو ہم آپ لوگوں کو ملک بدر کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ اہل ایمان نے اس کے جواب میںکہا کہ ہمیں اللہ نے ملتِ کفر سے نجات دے کر ملتِ اسلامیہ سے وابستہ ہونے کی نعمت سے سرفراز کیا ہے تو ہم کیسے غلط راستہ کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ ہم اللہ سے دعاءگو ہیںکہ وہ ہمارے اورتمہارے درمیان دوٹوک فیصلہ کرکے حق کو غالب کردے۔ چنانچہ بڑی شدت کا زلزلہ آیا اور حضرت شعیب علیہ السلام کی نبوت کے منکر اس طرح تباہ ہوگئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا اور مو منوں کو اللہ تعالیٰ نے عافیت کے ساتھ بچالیا جس پر حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ میںنے تو قوم کی خیرخواہی کرتے ہوئے اپنے رب کا پیغام پہنچادیا تھا مگر اسے تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے یہ لوگ تباہ ہوگئے اب ان پر میں کیسے رحم کھاسکتا ہوں؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ضابطہ بیان کردیا کہ خوشحالی اور تنگدستی کن حالات میں عذاب خداوندی کا مظہر ہوتی ہے اور کن حالات میں اللہ کی طرف سے ابتلاءو آزمائش ہوتی ہے۔ اگر اچھے یا برے حالات کی تبدیلی اعمال میں بہتری پیدا کرکے اللہ کا قرب نصیب کردے تو یہ تبدیلی امتحان ہے اور اللہ کی رضا کا باعث ہے اور اگر اعمال صالحہ میں ترقی نہ ہو بلکہ وہی سابقہ صورتحال رہے یا نافرمانیوں میں اور اضافہ ہوجائے تو یہ تبدیلی عذاب ہے اور اللہ کی ناراضگی اور غضب کا موجب ہے۔ اللہ کے عذاب سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہونا چاہئے وہ صبح و شام کسی وقت بھی اچانک آسکتا ہے۔ ہم ان تباہ شدہ بستیوں کے حالات اس لئے سنارہے ہیں کہ انبیاءو رسل کی آمد کے باوجود بھی ان لوگوں نے اپنے اعمال میں بہتری پیدا نہ کرکے اپنے آپ کو عذاب الٰہی کا مستحق ٹھہرالیا۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگاکر ان کا نام و نشان مٹاکر رکھ دیا۔
اس کے بعد معرکہ خیر و شر کا مشہور واقعہ ”قصہ موسیٰ و فرعون“ کا بیان ہے جو آیت ۳۰۱ سے ۶۰۱ تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں بعض جزئیات کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ قرآن کریم میں باربار دہرائے جانے والے واقعات میں سے ایک ہے اور جتنی تفصیل اس واقعہ کی بیان کی گئی ہے، اتنی کسی دوسرے واقعہ کی تکرار کے ساتھ تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے۔ یوں تو اکثر سورتوں میں کسی نہ کسی انداز میں اس کا حوالہ مل جاتا ہے مگر سورہ بقرہ، اعراف، طٰہٰ اور قصص میں مختلف پہلوﺅں سے اس واقعہ کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں خیر کی بھرپور نمائندگی حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کرتے ہیں جبکہ شر کی بھرپور نمائندگی فرعون، ہامان، قارون اور یہودی قوم کرتی ہے۔ یہ لوگ اقتدار اعلیٰ، نوکر شاہی، سرمایہ داری کے نمائندہ ہیں۔ سورة الاعراف میں فرعون اور قوم یہود کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ہم نے اپنی آیات دے کر موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے حمایتیوں کی طرف بھیجاانہوں نے ان آیات کو ٹھکراکر فساد برپا کیا۔ آپ دیکھیں ان مفسدین کو کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ موسیٰ علیہ السلام جب رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس تشریف لے گئے اور انہوں نے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا تو اس نے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ”عصا کا اژدھا“ اور ”ہاتھ کو چمکتا“ ہوا بناکر دکھادیا۔ فرعون نے اسے ”جادو“ قرار دے کر مقابلہ کے لئے ”جادوگر“ بلوالئے۔ انہوں نے رسیوں اور لکڑیوں سے سانپ بنائے۔ موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدھا ان سب کو نگل گیا۔ جادوگر چونکہ اپنے فن کے ماہر تھے وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ نبی کا معجزہ ہے۔ وہ مسلمان ہوکر سجدہ ریز ہوگئے۔ فرعون نے یہ کہہ کر کہ موسیٰ جادوگروں کا استاد ہے۔ یہ چھوٹے شاگرد ہیں انہوں نے سازباز کرکے یہ ڈراما رچایا ہے اس نے سب جادوگروں کے ہاتھ پاﺅں کاٹ کر انہیں سولی پر چڑھادیا وہ مرتے مرگئے مگر ایمان سے منحرف نہیں ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام نبی تھے، فرعون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا مگر بنی اسرائیل پر اس نے عرصہ حیات تنگ کردیا۔ مظالم سے تنگ آکر قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: آپ کی نبوت تسلیم کرنے سے پہلے بھی ہم ستائے جارہے تھے آپ کے آنے کے بعد اس میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ مظالم پہلے سے بڑھ گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گھروں میں ہی قبلہ رو ہوکرنماز اور صبر کی مدد سے اللہ کی مدد کو اپنی طرف متوجہ کرو۔ دنیا میں آزمائش کے طور پر اللہ جسے چاہیں اقتدار پر فائز کریں، لیکن آخرت میں متقیوں کو بہتر انجام ملے گا۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر مختلف عذاب مسلط کئے۔ قحط سالی اور سبزیوں اور پھلوں کی قلت کا عذاب آیا۔ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو وہ کہتے کہ ہماری ”حسن تدبیر“ کا کرشمہ ہے اور جب انہیں کوئی نقصان یا تکلیف پہنچتی تو اسے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے مو من ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ ہم پر اپنا جادو آزمانے کے لئے تم بڑے سے بڑا معجزہ دکھادو ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ ان پر اللہ نے طوفان، مکڑی، جوﺅں، مینڈکوں اور خون کا پے در پے عذاب بھیجا مگر وہ تکبر کے ساتھ اپنے جرائم میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ جب ان پر عذاب کی کوئی شکل ظاہر ہوتی تو وہ جھوٹے عہد و پیمان کرکے موسیٰ علیہ السلام سے دعاءکرالیتے، مگر عذاب کے ختم ہوتے ہی پھر نافرمانیوں پر اتر آتے۔ ہماری آیات سے غفلت برتنے اور جھٹلانے کا ہم نے انتقام لے کر انہیں سمندر میں غرق کردیا۔ ہم نے دنیا میں کمزاور ضعیف سمجھی جانے والی قوم کو ان کے محلات، باغات اور اقتدار کا وارث بنادیا اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی خاطر کتاب دینے کے لئے حضرت ہارون کو جانشین قرار دے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام ”کوہِ طور“ پر ریاضت کرنے کے لئے بلائے گئے، جہاں وہ چالیس روز تک مقیم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شرف ہمکلامی بخشا اور تورات عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا ایسا مزہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی زیارت کی درخواست کردی۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی کی جس کی تاب نہ لاکر پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا، جس سے ثابت ہوا کہ انسان اپنے دنیاوی قویٰ کے ساتھ اللہ کی زیارت نہیں کرسکتا۔
موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں قوم شرک میں مبتلا ہوکر بچھڑے کی پوجا کرنے لگی۔ موسیٰ علیہ السلام واپس آکر قوم پر بہت ناراض ہوئے، بھائی ہارون کو بھی ڈانٹا اور پھر تواضع کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے، اپنے بھائی کے لئے اور پوری قوم کے لئے معافی طلب کرتے ہوئے مغفرت، رحمت اور ہدایت کی دعا مانگی۔ اللہ نے فرمایا میری رحمت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں۔ تقویٰ اور ایمان کو اختیار کریں اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم جن کا تذکرہ ان کی کتابوںتورات اور انجیل میں ہے اور وہ انہیں امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کرتے ہیں، ان کی خودساختہ پابندیوں کو ان پر سے ختم کرکے ان کے گناہوں کے بوجھ سے انہیں آزاد کراتے ہیں، ان پر ایمان لاکر ان کی مدد و نصرت کریں تویہ لوگ کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں گے۔ پھر حضور علیہ السلام کی رسالت کی عمومیت کو بیان کیا کہ آپ تمام انسانیت کے لئے نبی بن کر تشریف لائے ہیں۔ پھر بنی اسرائیل پر مزید احسانات کا تذکرہ فرمایا کہ بارہ قبیلوں کے لئے پتھر سے بارہ چشمے جاری کئے۔ بادل کا سائبان اور من و سلویٰ کی خوراک عطاءکی۔ بیت المقدس میں داخلہ کے لئے جہاد کا حکم دیا اور مخالفت پر آسمانی عذاب کے مستحق قرار پائے۔ پھر سمندر کے کنارے بسنے والوں کا تذکرہ جنہوں نے سنیچر کا دن عبادت کے لئے مقرر کیا، مگر اس کی پابندی کرنے کی بجائے اس دن شکار میں مشغول ہوگئے، جس کی وجہ سے ذلت آمیز عذاب میں مبتلا ہوکر بندروں کی شکل میں مسخ ہوگئے۔ پھر پہاڑ سروں پر معلق کرکے بنی اسرائیل سے میثاق لینے کا تذکرہ ہے کہ اتنے اہتمام کے باوجود بھی انہوں نے پابندی نہیں کی۔ پھر پوری انسانیت سے لئے جانے والے ”عہد ا لست“ کا تذکرہ ہے جو عالم ارواح میں آدم علیہ السلام کی پشت سے تمام روحوں کو ”بھوری چیونٹیوں“ کی شکل میں نکال کر لیا گیا۔ تمام روحوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا، مگر دنیا میں آکر بہت سے لوگ اس سے منحرف ہوگئے۔ پھر ایک اسرائیلی عالم کا تذکرہ جس نے اپنی بیوی کے بہکاوے میں آکر مالی مفادات کے لئے اللہ کی آیات کی غلط تعبیر و تشریح کی، اسے کتے کی مانند بناکر اس کی زبان سینے تک لٹکادی گئی اور وہ کتے کی طرح ہانپتا ہوا جہنم رسید ہوگیا۔ جسے اللہ ہدایت دیں وہی ہدایت یافتہ بن سکتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کردیں وہ خسارے میں ہے۔
جنات اور انسانوں میں جو لوگ اپنے دل و دماغ اور آنکھ اور کان کا صحیح استعمال کرکے توحید باری تعالیٰ کو نہ مانیں وہ لوگ گمراہی میں جانوروں سے بھی بدتر ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اللہ کو اس کے اسماءحسنیٰ کے ساتھ یاد کیا جائے۔ ملحدین کے خودساختہ نام اللہ کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ پھر قیامت کا تذکرہ کہ وہ اچانک کسی بھی وقت آجائے گی۔ اس کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ پھر نبی سے اعلان کروایا گیا ”میں اپنے لئے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو مجھ پر کبھی کوئی تکلیف نہ آتی اور تمام بھلائیاں میں اپنے لئے جمع کرلیتا۔ میں تو اہل ایمان کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے کے لئے آیا ہوں“ پھر قدرتِ خداوندی کے بیان کے لئے ایک جان آدم علیہ السلام سے انسانی تخلیق کا تذکرہ اور پھر ازدواجی زندگی کے فائدہ کا بیان کہ اس کا مقصد زوجین کا ایک دوسرے کے ذریعہ سکون حاصل کرنا ہے۔ پھر شرک کی مذمت کہ ایسے کمزوروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو دوسروں کو تو کیا پیدا کریں گے خود اپنی پیدائش میں اللہ کے محتاج ہیں۔ جن بتوں کو یہ اپنا معبود سمجھتے ہیں وہ چلنے پھرنے اور دیکھنے سننے سے بھی محروم ہیں۔ جو اپنی مدد نہ کرسکیں وہ دوسروں کی کیا مدد کریں گے؟ ایک داعی الی اللہ کو اخلاق فاضلہ کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ”عفو و درگزر کرتے ہوئے نیکی کا حکم دیتے رہیں، اگر کبھی شیطان کے اثرات سے کوئی نازیبا حرکت سرزد ہوجائے تو اللہ کی پناہ میں آکر تقویٰ اور نصیحت کو اختیار کرلینا چاہئے۔ اتباع اور پیروی کے لئے وحی الٰہی کا ہونا ضروری ہے۔ جب قرآن پڑھاجائے تو توجہ سے سنیں اور صبح و شام اللہ کو یاد کرتے رہیں۔ اللہ کے برگزیدہ بندے اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ وہ اس کی تسبیح و تحمید کرتے ہوئے اس کے حضور سجدہ ریز رہتے ہیں۔

سورة الانفال


انفال کے معنیٰ مال غنیمت کے ہیں، اس سورت میں غنیمت کے احکام کا بیان ہے۔ اس میں غزوہ بدر کا تفصیلی تذکرہ ہے اس لئے بعض مفسرین نے اسے سورئہ بدر بھی کہا ہے۔ پچھتر آیات اور دس رکوعات پر مشتمل یہ مدنی سورت ہے۔ اس سورت میں چھ مرتبہ یا ایہا الذین اٰمنوا کہہ کر خطاب کرتے ہوئے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ دیئے جانے والے احکام پر عمل ایک مسلمان کے ایمان کا اولین تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ لوگ مال غنیمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے وہ جس طرح چاہے اس کی تقسیم کا حکم جاری کرے۔ پھر کامل ایمان والوں کی صفات، اللہ کے ذکر سے متاثر ہونا، کلام اللہ کو سن کر دلوں کا نرم ہوجانا اور اللہ پر توکل کرنا مذکور ہے۔ پھر بدر کے ابتدائی مرحلہ کا تذکرہ ہے کہ نکلتے وقت تمہارے بعض لوگ پوری طرح تیار نہ ہونے کی وجہ سے جہاد پر آمادہ نہیں تھے۔ لیکن جب نبی کے ساتھ مل کر کافروں سے مقابلہ کے لئے میدان میں آگئے تو اللہ نے فرشتے اتا رکر تمہاری مدد فرمائی۔ کافر قتل اور زخمی ہوئے اور میدان سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ مجاہدین کی عظمت کا بیان ہے کہ تم نے جو کافر قتل اور گرفتار کئے یا ان پر تیر برسائے تو درحقیقت وہ اللہ نے سب کچھ کیا۔ پھر بتایا کہ میدان جہاد سے بھاگنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے البتہ اگر مزید تیاری کرکے دوبارہ حملہ آور ہونے کے ارادے سے پیچھے ہٹا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ اور اسکے رسول کا جب بھی کوئی حکم آئے تو اس پر عمل کرنے میں تاخیر نہ کریں اس میں تمہاری حیات کا راز مضمر ہے۔ کافر لوگ نبی کو گرفتار یا قتل کرنا چاہتے ہیں یا انہیں علاقہ بدر کرنے کے لئے کوشاں ہیں مگر ان کی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی اور ان کی سازشوں کا توڑ کرتے رہیںگے۔ اسلام کا راستہ روکنے کے لئے کافر اپنا مال خرچ کررہے ہیں مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ جتنا مال چاہیں خرچ کردیں آخر کار انہیں اپنا مال ضائع ہونے پر حسرت اور افسوس ہی ہوگا۔ دشمنان اسلام کو یہ پیغام دے دو کہ اگر وہ اسلام دشمن ہتھکنڈوں سے باز آجائیں تو انہیں معافی مل سکتی ہے ورنہ پہلی قوموں کی گرفت، نظام دنیا کے سامنے موجود ہے۔ قتال فی سبیل اللہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دنیا سے فتنہ و فساد ختم ہوکر دین اسلام کا نظام پوری دنیا پر غالب نہ آجائے۔

Saturday 25 June 2016

واعلموا- ١٠-دسویں پارے کا خلاصہ

دسویں پارے کے اہم مضامین

پارے کی ابتداءمیں بتایا گیا ہے ”مال غنیمت“ میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لئے نکال کر باقی چار خمس مجاہدین میں تقسیم کردیئے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کسی تیاری کے بغیر غزوہ بدر میں کفر و اسلام کو مدمقابل لانے کی حکمت بیان فرمائی کہ اگر تم مقابلہ کا وقت مقرر کرلیتے تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ مسلمان اپنی تعداد و اسلحہ کی قلت کے پیش نظر پس و پیش کا مظاہرہ کرتے یا کافر مرعوب ہوکر مسلمانوں کے مقابلہ سے گریز کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں سے جنگ چاہتے تھے تاکہ بے سروسامانی کے باوجود انہیں کامیاب کرکے حق و باطل کا فرق واضح کردیں اور جو مسلمان ہونا چاہے علی وجہ البصیرت ہو اور جو کافر رہنا چاہے وہ بھی سوچ سمجھ کر ہو۔ اس کے بعد جہاد میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کی تلقین ہے، اس بات کا بیان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ باہمی اختلاف و نزاع سے بھی بچنا ضروری ہے۔ ورنہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ کافر ریاکاری اور تکبر کے ساتھ میدان میں اس لئے نکلے تھے تاکہ اہل ایمان کو اللہ کے راستہ سے روکیں اور شیطان انسانی شکل میں ان کی حوصلہ افزائی کررہا تھا مگر جب اس نے فرشتوں کی شکل میں اللہ کی مدد اترتی ہوئی دیکھی تو بھاگ اٹھا اور کہنے لگا کہ میں جس صورتحال کا مشاہدہ کررہا ہوں وہ تمہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ اس وقت بعض منافق اور دلوں میں مرض رکھنے والے لوگ یہ کہہ رہے تھے، ان مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور انہوں نے اللہ کے بھروسہ پر اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے پر توکل کرنے والوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں کامیابی عطا فرمایا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس سے پہلے کافروں کے عبرتناک انجام کو بیان کیا اور بتایا کہ کافر بھی اسی صورتحال سے دوچار ہوکر رہیں گے۔ اس کے بعد قوموں کے عروج و زوال کا ناقابل تردید ضابطہ بیان فرمایا۔ اللہ کسی قوم کو اس وقت تک زوال پذیر نہیں کرتے جب تک وہ اپنی عملی زندگی میں انحطاط کا شکار نہ ہوجائیں۔ حضرت محمد علیہ السلام پر ایمان نہ لانے والے لوگ بدترین جانور ہیں۔ یہودیوں نے اس موقع پر میثاق مدینہ کی مخالفت کرتے ہوے مشرکین مکہ کی حمایت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :عہد شکنی کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہئے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو اور خیانت کرنے والوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پاسداری لازمی نہیں رہ جاتی ایسے معاہدے توڑ دینے چاہئیں۔ کافر یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دشمنان اسلام پر رعب ڈالنے کے لئے تم لوگ جس قدر ہوسکے قوت اور مضبوط گھوڑے تیار رکھو۔ اللہ کے راستہ میں تم جو بھی اخراجات کروگے اللہ تمہیں واپس کردیں گے۔ تم کافروں کے مقابلہ میں کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرنا البتہ اگر وہ تمہارے ساتھ صلح کرنا چاہیں تو پھر صلح کرلینا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اللہ نے اپنی مدد اور ایمان والوں کی قوت سے آپ کو مضبوط کیا ہوا ہے اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے باہم شیر وشکر بناکر آپ کے گرد جمع کردیا ہے۔ ساری دنیا کا مال دولت خرچ کرکے بھی آپ انہیں اس طرح جمع نہیں کرسکتے تھے جس طرح اللہ نے انہیں جمع کردیا ہے۔ جہاد میں کامیابی کے لئے اللہ کی مدد اور مسلمانوں کا تعاون آپ کے لئے بہت کافی ہے۔ خود بھی جہاد کریں اور اہل ایمان کو بھی جہا دکی ترغیب دیں۔ ابتداءمیں جب مسلمانوں کی تعداد کم تھی تو، اگر مسلمانوں اور کافروں میں ایک اور دس کا تناسب ہوتو میدان سے ہٹ جانے کو فرار عن الزحف اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا پھر جب تعداد زیادہ ہوگئی تو ایک اور دو کا تناسب باقی رکھا گیا اور اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں میدان چھوڑ دینے کی اجازت دے دی گئی۔
غزوہ بدر میں ستر کافر قتل ہوئے اور ستر ہی گرفتار ہوئے تو قیدیوں کا مسئلہ درپیش آگیا۔ اس سلسلہ میں دو رائے سامنے آئیں کہ مسلمانوں کا رعب پیدا کرنے کے لئے انہیں قتل کردیا جائے یا ان کے ایمان لانے کی امید پر فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ دوسری رائے کو اختیار کیا گیا مگر اس میں شبہ تھا کہ یہ قیدی رہائی کے بعد پھر اسلام کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس رائے کے مطابق فیصلہ پسند نہیں فرمایا مگر بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اس لئے اللہ نے فدیہ کا فیصلہ کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی۔
اس کے بعد ہجرت و نصرت کا حکم بیان کیا کہ جب کسی علاقہ میں رہ کر اپنا ایمان و عمل بچانا مشکل ہوجائے تو رشتہ داروں اور وطن کی محبت میں وہاں رہنے کی اجازت نہیں بلکہ وہاں سے ہجرت کرکے اپنے ایمانی رشتہ داروں کے ساتھ جاکر مقیم ہوجانے کا حکم ہے۔ ایمانی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہجرت نہ کرنے پر بہت سخت وعید سنائی گئی کہ اس سے دنیا میں فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔

سورہ توبہ

مدنی سورت ہے۔ ایک سو انتیس ۹۲۱ آیتوں اور سولہ رکوع پر مشتمل ہے۔ اس میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والے تین مخلص مسلمانوں کی توبہ قبول ہونے کا اعلان ہے۔ اس لئے اس کا نام توبہ رکھا گیا ہے اور اس سورت کا مضمون پہلی سورت سے جہاد کے حوالہ سے ملتا جلتا ہے اور اس میں کفار کے لئے مہلت ختم کرکے کھلا ہوا اعلان جنگ ہے اس لئے اس کے شروع میں بسم اللہ نہیں لائی گئی۔
یہ سورت غزوہ تبوک کے بعد واپسی پر نازل ہوئی۔ جہاد اور زکوٰة کے حوالہ سے منافقین کی خباثتوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقاب ہٹاکر انہیں معاشرے میں ظاہر کیا گیا ہے۔ صلح اور امن کے معاہدوں سے کافروں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ان کے اسلام دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لہٰذا ان معاہدوں کو چار مہینہ کی مہلت دے کر ختم کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے اور حکم دیا جارہا ہے کہ جس طرح یہ کافر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ کافر جہاں بھی ملیں انہیں تہِ تیغ کریں۔ اللہ ان کافروں پر آسمان سے کوئی عذاب اتارنے کی بجائے میدان جہاد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل کرانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں سزا بھی مل جائے، یہ ذلیل و رسوا بھی ہوں اور مسلمانوں کے دلوں کا غصہ بھی اتر جائے اور بعض کافر اس عبرتناک انجام سے سبق حاصل کرکے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرسکیں۔ دو مسلمانوں کی آپس میں گفتگو ہوئی، ایک نے کہا حضور علیہ السلام کے ساتھ جہاد میں شرکت کے بہت سے مواقع مل چکے ہیں۔ اب تو میں کعبة اللہ میں رہ کر عبادت کرنے اور حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ جہاد کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا میں تو اللہ کے نبی کے ہمراہ جہاد کی سعادت حاصل کرتا رہوں گا۔ حضور علیہ السلام نے آیت قرآنی پڑھ کر سنائی۔ کیا تم نے کعبة اللہ کی عبادت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کو جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھ لیا ہے؟ یہ اللہ کی نگاہ میں کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ رشتہ داریوں، کاروباری مفادات اور اپنے گھروں کو اللہ اور اس کے رسول اور جہاد پر ترجیح دینے والے اللہ کے عذاب کے لئے تیار ہوجائیں۔ ایسے فاسقوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتے۔ اس کے بعد غزوہ حنین اور اس میں کثرت تعداد کے باوجود مسلمانوں کے نقصان اٹھانے اور پھر اللہ کی مدد سے کامیاب ہونے کا تذکرہ ہے۔ آئندہ کے لئے کافروں کے حرم شریف میں داخلے پر پابندی کا قانون بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ توحید و آخرت پر ایمان نہ لانے والے اور اسلامی نظام حیات سے پہلوتہی کرنے والے اسلامی معاشرہ کے افراد بن کر نہیں رہ سکتے۔ انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ جزیہ ادا کرکے اپنے رہنے کے لئے جواز پیدا کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرنے کے عقیدہ کی تردید ہے اور بتایا گیا ہے کہ کسی مذہبی رہنما کو اتنا تقدس نہیں دیا جاسکتا کہ اللہ کی بجائے اسی کو معبود بنالیا جائے اور عبادت سے مراد احکام کی پابندی ہے۔ مذہبی رہنماﺅں کے احکام اسی وقت تک قابل عمل ہیں جب تک وہ قوم کو آسمانی وحی کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرتے رہیں۔ اس کے بعد مال و دولت اور سونے چاندی میں اللہ کے احکام کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے لئے وعید ہے کہ سونا چاندی جہنم میں تپاکر انہیں داغا جائے گا۔ پھر مہینوں اور تاریخوں میں تبدیلی کرکے حرام کو حلال کرنے کی کافرانہ حرکت پر تنبیہ کی گئی ہے۔ پھر جہاد کے لئے نہ نکلنے پر وعید بیان کی ہے اور دردناک عذاب کا پیغام دیا گیا ہے اور اس اٹل حقیقت کا اعلان ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہے گا اور کفر کو اللہ نے مغلوب کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ تبوک کے پرمشقت اور طویل جہادی سفر میں شریک نہ ہونے والے منافقین نے امام المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی مجاہدین پر مختلف اعتراض اٹھائے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ خوبصورت رومی عورتوں کی وجہ سے ہم بدنظری کے فتنہ میں پڑسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاد سے انکار بڑا فتنہ ہے، جس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ کوئی جہاد کے لئے چندہ اور صدقات جمع کرنے پر اعتراض کرتا، کوئی حضور علیہ السلام کی گستاخی کرتے ہوئے کہتا کہ یہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چندہ پر اعتراض کرنے والوں کو اگر اس میں سے ”مال“ مل جائے تو ان کا سارا اعتراض ختم ہوجائے گا اور سنی سنائی باتوں کے حوالہ سے فرمایا کہ وہ اللہ سے سنی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور ایمان و رحمت کے پھیلانے اور بدی کے راستہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کے لئے باغات اور نہریں ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔ کفار و منافقین کے خلاف جہاد جاری رکھنے کا دوٹوک اعلان کیا گیا ہے۔ ایک شخص نے حضور علیہ السلام سے دعاءکرائی کہ اللہ مجھے مال و دولت دے تو میں فی سبیل اللہ خرچ کروں گا۔ جب اس کے پاس بہت مال و دولت ہوگیا تو اس نے زکوٰة دینے سے بھی انکار کردیا۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے صدقہ و خیرات کا عہد و پیمان کرتے ہیں اور جب اللہ انہیں عطاءکردے تو وہ بخل کرتے ہیں اور صدقہ سے انکار کردیتے ہیں۔ منافقین کو ہمیشہ کے لئے مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لئے معافی کی درخواست کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہرگز انہیں معاف نہیں کریں گے۔ گرمی اور راستہ کی مشقت کا بہانہ بناکر یہ لوگ جہاد میں شریک نہیں ہوئے اور رسول اللہ کی مخالفت کرکے خوش ہورہے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ جہنم کی گرمی بہت سخت ہے اور جہاد پر نہ جانے کی وجہ سے تمہیں جہنم میں جانا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو منافقین کا جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر جاکر دعاءمغفرت کرنے سے منع کردیا، نبی پیغمبرانہ تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کے لئے نرم دل ہیں اور نبی کے گستاخوں اور دل آزاری کرنے والوں کے لئے دردناک عذاب تیار ہے۔ ایمان والے کبھی جہاد سے نہیں بھاگتے۔ جہاد سے راہِ فرار تو بے ایمان اور کافر ہی اختیار کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی جہاد کے لئے نکلنے کو تیار ہیں۔ تیاری کا مطلب تو یہ ہے کہ تربیت اور اسلحہ کے ساتھ تیار ہوں (جبکہ ان لوگوں نے ایسی کوئی تیاری نہیں کی)۔ ان منافقین کو بدعملی اور دوغلی پالیسی کے پیش نظر آئندہ بھی جہاد کے سفر میں شریک نہیں کیا جائے گا۔
آپ نے انہیں جہاد سے پیچھے رہ جانے پر معافی دے دی ہم اس بات پر آپ کو معاف کررہے ہیں ورنہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا تاکہ مخلص ایمان والے اور منافق سامنے آجاتے۔ پھر زکوٰة و صدقات کے مستحقین کی آٹھ اقسام کو بیان کیا ہے کہ فقرائ، مساکین، زکوٰة وصول کرنے والے عامل، مولفة القلوب، غلاموں کو آزاد کرانے، قرض دار، مسافر اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ پھر منافقین کے متعلق بتایا کہ برائی کی نشر و اشاعت اور نیکی کے راستہ میں رکاوٹ ہیں ان کے لئے جہنم کی سزا ہے جبکہ مومنین ایک دوسرے کے دوست، نیکی پھیلانے والے ہیں جبکہ منافقین نے جہاد کے مقابلہ میں گھروں میں رہنے کو ترجیح دے کر نسوانیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ اگر کوئی شرعی معذور، غربت و مسکنت کا شکار جہاد سے پیچھے رہ گیا تو کوئی حرج نہیں ہے کچھ لوگ سواری طلب کرنے کے لئے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، آپ کے پاس سواری کا انتظام نہ پاکر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ وہ سواری نہ ہونے کی وجہ سے جہاد کے عظیم الشان عمل سے محروم ہوجائیں گے۔ اللہ نے ان کی تعریف کی اور صاحبِ حیثیت کے سفر خرچ کی گنجائش رکھنے کے باوجود جہاد کے لئے نہ جانے پر مذمت کی گئی ہے۔

يعتذرون- ١١-کیاروہیں پارے کا خلاصہ

گیارہویں پارہ کے اہم مضامین

اس پارہ کی ابتداءمیں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو اپنے نفاق کی وجہ سے تبوک کے سفر جہاد میں حضور علیہ السلام کے ساتھ شریک نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ عذر بیان کریں گے اور قسمیں کھا کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ ان کی بات کا اعتبار نہ کریں۔ یہ لوگ چاہیں گے کہ آپ صرفِ نظر کرکے ان سے راضی ہوجائیں۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، اگر آپ ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ایسے نافرمانوں سے کبھی راضی نہیں ہوں گے۔ دیہاتیوں میں بھی دونوں قسم کے لوگ ہیں۔ کفر و نفاق میں پختہ کار اور اللہ کے نام پر خرچ کرنے کو جرمانہ سمجھنے اور مسلمانوں پر تکلیف و مشکلات کا انتظار کرنے والے اور توحید و قیامت پر ایمان کے ساتھ اللہ کے نام پر پیسہ لگا کر خوش ہونے والے۔ یہ اللہ کے قرب اور رحمت کے مستحق ہیں۔ دین میں پہل کرنے والے اور نیکی میں سبقت لے جانے والے انصارو مہاجرین اور ان کے متبعین کے لئے جنت کی دائمی نعمتوں کی خوشخبری اور عظیم کامیابی کی نوید ہے۔ اور ایسے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنی غلطیوں کے اعتراف کے ساتھ نیک اعمال سر انجام دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرماتے ہیں۔ اس کے بعد مسجد ضرار کا تذکرہ ہے۔ قبا کے مخلص مسلمانوں نے مسجد بنا کر اللہ کی عبادت اور اعمالِ خیر کی طرح ڈالی تو کافروں نے ان کے مقابلہ میں فتنہ و فساد کے لئے ایک مرکز بنا کر اسے مسجد کا نام دیا۔ انہیں خفیہ طور پر عیسائیوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ لوگ حضور علیہ السلام کو بلا کر افتتاح کرانا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کی نگاہ میں مسجد مقدس بن جائے اور وہ در پردہ اس مسجد کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار اور فساد پھیلانے کی سازشیں کرتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپسی پر اس مسجد کے افتتاح کی حامی بھری جس پر اللہ نے آپ کو منع کردیا اور اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا۔ اللہ کے نبی نے اسے مسجد ضرار (مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی مسجد) قرار دے کر بعض صحابہ کو بھیجا اور اسے آگ لگا کر جلانے اور پیوند زمین کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اسلامی معاشرہ میں فتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے کوئی مسجد بھی تعمیر کی جائے تو اس کا تقدس تسلیم نہیں کیا جائے گا اور یہ بھی واضح ہوا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے مذہبی رنگ میں کوشاں رہتے ہیں اور ایسی کارروائیوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد قبا اور اس میں جمع ہونے والے مخلصین کی تعریف فرمائی اور ان کی ظاہری و باطنی طہارت کے جذبہ کو سراہا۔
مسلمانوں کی مجاہدانہ کارروائیوں کو اللہ کے ساتھ تجارت قرار دے کر بتایا کہ جنت کی قیمت میں اللہ نے اہل ایمان کی جانیں خریدلی ہیں۔ یہ لوگ کافروںکو قتل کرتے ہیں اور خود بھی مرتبہ شہادت پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ان کی مزید خوبیاں یہ ہیں کہ یہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، اللہ کی تعریف کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع سجدہ کرنے والے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے اور اللہ کی حدود کے محافظ ہیں۔ ایسے مسلمان بشارت کے مستحق ہیں، مسلمانوں کو منع کیا کہ مشرکین کے لئے استغفار نہ کریں۔ غزوہ تبوک میں شرکت سے تین مخلص مسلمان بھی بغیر کسی عذر کے پیچھے رہ گئے تھے۔ پچاس دن تک ان کا مقاطعہ کیا گیا، ان سے بات چیت اور لین دین بند رکھا گیا پھر ان کی توبہ قبول فرما کر ان کے تذکرہ کو قرآن کریم کا حصہ بنادیا گیا۔ اس سے جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت اور پیچھے رہ جانے والے مخلصین کی سچی توبہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سچائی کو ہر حال میں اپنانے کی تلقین ہے اورکسی بھی حال میں نبی کا ساتھ نہ چھوڑنے کی تاکید ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے دوران بھوک پیاس اور تھکن برداشت کرنے اور مال خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔ عام حالات میں جہاد کے فرض کفایہ ہونے کا بیان ہے۔کافروں کے ساتھ مقابلہ میں کسی قسم کی سستی اور نرمی اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ قرآن کریم کی تائید کا بیان ہے کہ اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور ترقی کا باعث ہے جبکہ منافقین کے نفاق اور بغض میں اضافہ کرتا ہے۔ سورت کے آخر میں حضور علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے کہ وہ عظیم الشان رسول مسلمانوں کی تکلیف سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور انہیں فائدہ پہنچانے کے خواہاں رہتے ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کے اعلان کے ساتھ ہی عرش عظیم کے رب پر توکل کی تعلیم پر سورت کا اختتام ہوتا ہے۔

سورئہ یونس

مکی سورت ہے۔ ایک سو نو آیتوں اور گیارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ حروف مقطعات سے آغاز ہے اور قرآن کریم کے حکیمانہ کلام ہونے کا بیان ہے اور منکرین قرآن کی ذہنیت کی نشاندہی کی ہے کہ وہ محض اس لئے اسے تسلیم نہیں کرتے کہ یہ ایک انسان پر کیوں نازل ہوا۔ پھر توحید باری تعالیٰ اور آسمان و زمین میں اس کی قدرت کے مظاہر کا بیان ہے۔ اس کے بعد قیامت کا تذکرہ اور اس بات کی وضاحت کہ دنیا کا سارا نظام ایمان اور اعمال صالحہ والوں کو جزا دینے اور کافروں کو کھولتے ہوئے پانی اور دردناک عذاب کی سزا دینے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ چاند اور سورج رات اور دن کی روشنی اور ماہ و سال کے حساب کے لئے بنائے گئے ہیں۔ دن رات کے آنے جانے میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ جس طرح لوگ خیر کے لئے جلدی مچاتے ہیں ایسے ہی اگر شر کو بھی اللہ تعالیٰ جلدی نازل کردیتے تو دنیا کا سارا نظام ختم ہوجاتا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کافروں پر عذاب اتارنے میںجلدی نہیںکرتے۔ انسان کا مزاج ہے کہ جب تکلیف میں مبتلا ہو تو اٹھتے بیٹھتے اللہ کو یاد کرتا رہتا ہے اور جیسے ہی تکلیف ہٹا دی جائے ویسے ہی اللہ کو بھلا دیتا ہے جیسے کسی مشکل میں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ پہلی قوموں کے گناہوں پر ان کی گرفت کی گئی پھر اللہ نے تمہیں ان کی جگہ دی تاکہ تمہارے اعمال کو دیکھ کر ان کے مطابق تمہارے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
منکرین آخرت کوجب ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ اس میں تبدیلی اور ترمیم و تنسیخ کا مطالبہ کرتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ یہ تبدیلی میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں وحی کا پابند ہوں۔ تم دیکھ چکے ہو کہ چالیس سال کا طویل عرصہ میں نے تمہیں قرآن نہیں سنایا کیونکہ اللہ کا حکم نہیں آیا تھا۔ اب سنانے کا حکم آگیا ہے اس لئے سنا رہا ہوں میں اپنی طرف اگر کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کرنے لگا تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے، تمہارے معبودان باطل تمہیں کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، نہ ہی اللہ کے سامنے کسی قسم کی سفارش کرسکتے ہیں۔ کفر کے اندھیرے میں تمام لوگ متحد نظر آتے ہیں جیسے ہی ایمان کی روشنی آتی ہے تو اختلاف کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب ہم تکلیف کے بعد انہیں راحت دیتے ہیں تو یہ اپنی فطری کجروی کے باعث شر ارتوں پر اتر آتے ہیں، آپ انہیں بتادیجئے کہ ہمارے فرشتے سب کچھ لکھ رہے ہیں اور اللہ بہت جلدی تمہاری بدعملی پر سزا دے سکتے ہیں۔ بحر و بر میں اللہ کے حکم پر تمام نقل و حرکت ہوتی ہے۔ باد بانی کشتیاں ہوا کے زور پر تمہیں منزل مقصود تک لے جائیں تو تم خوش ہوتے ہو اور شرک میںمبتلارہتے ہو اور طغیانی میں پھنس کر بادِ مخالف کی زد پر آجائیں تو مایوس ہوکر اللہ سے مدد طلب کرنے لگتے ہو۔ جیسے ہی اللہ نجات دیتے ہیں تم پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہو۔ دنیا کی فانی اور عارضی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے بارش برسے اور کھیتیاں لہلہانے لگیں او رکسان خوش ہونے لگیں اسی اثنا میں کوئی آفت آکر اسے اس طرح تباہ کرکے رکھ دے کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ غور و فکر کرنے والوں کے لئے ہم ایسی ہی آیات کو واضح کرتے ہیں۔ اللہ جنت کی طرف بلاتے ہیں۔ نیک و صالح لوگوں کے لئے بہترین بدلہ، ان کے چہروں پر ذلت و رسوائی یا کدورت نہیں چھائے گی اور گناہ گاروں کو ان کے گناہ کا بدلہ ملے گا۔ ان کے چہروں پر ذلت اور سیاہی چھا رہی ہوگی۔ ہم قیامت میں ان سب کو جمع کرکے پوچھیں گے تو یہ اپنے معبودان باطل کا انکارکریں گے اور ان کے معبود انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔ وہاں ان لوگوں کو اپنے اعمال کے غلط ہونے کا پتہ چل جائے گا۔ پھر اللہ کی قدرت کے دلائل اور ہدایت و ضلالت کے اللہ کی مشیت کے تابع ہونے کا بیان ہے۔ قرآن کریم کی حفاظت کا تذکرہ ہے کہ ایسا کلام کوئی شخص اپنے طور پر گھڑ نہیں سکتا۔ اگر تم میں ہمت ہے تو ایسی ایک سورت ہی بناکر دکھادو۔ اگر یہ لوگ جھٹلاتے ہیں تو ان پر جبر نہیں کیا جائے گا۔ آپ انہیں کہہ دیجئے کہ تمہارے اعمال کا بدلہ تمہیں ملے گا اور میرے اعمال کا بدلہ مجھے ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے۔ ہر قوم کے پاس اللہ کا پیغام پہنچانے والا بھیجا گیا ہے۔ اگر اللہ کا عذاب اچانک آجائے تو پھر جلدی مچانے والے کیا کریں گے۔ ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب دائمی عذاب کا مزہ چکھ لو۔ یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ سب باتیں سچی ہیں؟ آپ کہئے میرے رب کی قسم یہ تمام برحق اور سچ ہے۔ تم اس عذاب کی ہولناکی سے بچنے کے لئے تمام دنیا کے خزانے فدیہ میں دینے کی تمنا کرو گے۔ عذاب دیکھ کر تم پر ندامت چھا جائے گی مگر اس وقت انصاف کیا جائے گا کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔
اے انسانو! تمہارے رب کی طرف سے وعظ و نصیحت کا پیغام آگیا۔ اس میں شفا اور ہدایت و رحمت ہے۔ اللہ کے فضل و رحمت پر ایمان والوں کو خوشیاں منانی چاہئیں۔ یہ اس سے بہت بہتر ہے جسے یہ لوگ جمع کررہے ہیں تم کسی حالت میں ہو کوئی بھی عمل کرو اللہ اس پر گواہ ہیں کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی آسمان و زمین کے اندر اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ اللہ کے دوستوں پر کوئی اندیشہ و غم نہیں ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقویٰ والے ہیں دنیا و آخرت میں ان کے لئے بشارت ہے۔ اللہ کی بات بدلی نہیں جاسکتی یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ کی قدرت کا بیان اور اولاد کے باطل عقیدہ کی تردید ہے۔ پھر نوح علیہ السلام کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کہ انہوںنے اپنی قوم کے متکبر سرداروںکے مقابلہ میں اللہ پر توکل کیا اور اللہ کا پیغام سنانے کے عوض کوئی تنخواہ طلب نہیں کی، اللہ نے انہیں اپنے پیروکاروں کے ساتھ کشتی میں بچالیا اور مخالفین کو طوفان میں غرق کرکے عبرتناک انجام سے دوچار کردیا۔پھر موسیٰ و ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجنے کا تذکرہ۔ انہوںنے متکبرانہ انداز میں جھٹلایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے معجزات دکھائے۔ انہوںنے اسے جادو قرار دے کر مقابلے کے لئے اس دور کے بڑے جادوگر بلالئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارا جادو میرے معجزہ کے مقابلے میں ناکام ہوکر رہے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے بددعا کی جس پر اللہ نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنے کا فیصلہ کردیا۔ فرعون نے غرق ہوتے وقت کلمہ پڑھا۔ اللہ نے اسے رد کردیا کہ زندگی بھر گناہ اور فساد مچا کر اب مرتے وقت ایمان لاتے ہو۔ حالت نزع کا ایمان قبول نہیں۔ البتہ انسایت کی عبرت کے لئے فرعون کے جسد خاکی کو باقی رکھ کر دنیا کو بتایا گیا کہ اتنا بڑا مقتدر اور متکبر بادشاہ کس طرح بے بس اور ذلت کی موت کا شکار ہوا۔ پھر یونس علیہ السلام اور انکی قوم کا تذکرہ کہ ان کی نافرمانیوں پر عذاب آگیا اور آیا ہوا عذاب کبھی نہیں ٹلتا مگر ان کی الحاح و زاری پر اللہ نے عذاب ٹال دیا۔ کسی کو زبردستی اللہ ہدایت نہیں دیتے انسان کی چاہت اور اپنے اندر تبدیلی کا فیصلہ ضروری ہے۔ کفرو شرک سے برات کا اظہار اور دین حنیف پر غیر متزلزل اعتماد کا اعلان کرنے کی تلقین ہے اور بتایا گیا کہ نفع نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہدایت کا پیغام انسانیت کے لئے آچکا ہے جو اسے اختیار کرے گا اپنا نفع کرے گا اور جو اس سے منکر ہوگا اپنا نقصان کرے گا۔وحی کی اتباع اور ثابت قدمی کی تلقین پر سورت کا اختتام کیا گیا ہے۔

سورئہ ھود

مکی سورت ہے، اس میں ایک سو تئیس آیتیں اور دس رکوع ہیں۔ اس سورت میں رسالت کا موضوع مرکزی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے انبیاءکے علاوہ قوم عاد، ان میں مبعوث کئے گئے نبی حضرت ہود علیہ السلام کا تذکرہ ہے اس لئے سورت کا نام ”ہود“ رکھا گیا۔ ابتداءمیں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے کہ یہ مفصل اور پر حکمت کتاب ہے پھر توحید باری تعالیٰ کا بیان اور توبہ و استغفار کی تلقین کے ساتھ آخرت کے یوم احتساب کا تذکرہ اور محاسبہ کے عمل کی یاددہانی ہے اور اللہ کے علم کی وسعت و شمول کا بیان کہ وہ خفیہ و علانیہ ہر چیز کو جانتا ہے اور سینوں کے تمام بھید اس کے علم میں ہیں۔

وما من دابۃ- ١٢-خلاصہ پارواں پارہ

با ر ہو یں پا ر ے کے اہم مضامین

ابتداءمیں تمام مخلوقات کی معیشت کا مسئلہ حل کرتے ہوئے اعلان کیا زمین پر چلنے والے تمام جانوروں کی روزی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عارضی اورمستقل قیام گاہ کو جانتا ہے۔ چھ دن میں آسمان و زمین پیدا کرکے انسان کو دنیا میں بھیجا تاکہ بہتر سے بہتر عمل کرنے والے کو منتخب کیا جاسکے۔ اللہ کے یہاں مقدار کی کثرت کی بجائے ”معیار کا حسن“ مطلوب ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ انسان زندہ کئے جائیں گے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ مردوں کو زندہ کرنا تو جادو کے عمل سے ہی ممکن ہوسکتا ہے اور ہم اگر ان کی نافرمانیوں پر مصلحت کے پیش نظر عذاب نہیں اتارتے تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کے عذاب موعود کو کس نے روک لیا ہے وہ آتا کیوں نہیں ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ عذاب کی جلدی نہ مچائیں جس دن ہم نے عذاب اتار دیا تو تم اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھو گے۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ اسے خوشحالی کے بعد اگر کچھ تنگی آجائے تو مایوس ہوجاتا ہے اور اگر تکلیف کے بعد راحت مل جائے تو اپنے گناہوں کو بھول کر اترانے اور تکبر کرنے لگتا ہے۔ اچھے انسان وہ ہیں جو دین پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعمال صالحہ پر کاربند رہیں۔ ان کافروں کے بیجا مطالبات سے آپ پریشان نہ ہوں اور محض اس لئے وحی الٰہی سے دستبردار نہ ہوں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر خزانے کیوں نہیں نازل ہوتے یا اس کی حفاظت کے لئے فرشتے اس کے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟ ایسے مطالبات کا شریعت کی پابندی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد علیہ السلام نے یہ کلام خود بنایا ہے، اگر یہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو یہ بھی چند سورتیں بناکر دکھادیں۔ قرآن کریم جیسی سورتیں بنانے سے ان کا عاجز آجانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ کا نازل کردہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ انسانوں کا ایسا کلام بنانے سے عاجز آجانا اس کی حقانیت کا داخلی ثبوت ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مثال دے کر بتایا کہ قرآن کریم کو تسلیم کرنے والا اپنی بصارت کے تقاضے پورے کررہا ہے، اس لئے وہ بینا ہے اور نہ تسلیم کرنے والا اپنی بصارت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ نابینا ہے اور قرآن پر ایمان لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے کرتا ہے اس لئے وہ سننے والا ہے اور ایمان نہ لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ بہرا ہے اور یہ لوگ آپس میں کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا سبق آموز واقعہ بیان ہوا ہے۔ نوح علیہ السلام نے قوم کو توحید و رسالت کی بات سمجھائی اور نہ ماننے کی صورت میں انہیں درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔ قوم میں اونچی سوسائٹی کے لوگ، سردار اور ارباب اقتدار کہنے لگے کہ آپ ہمارے جیسے عام انسان ہیں اور آپ کا ساتھ دینے والے معاشرہ کے نچلے طبقے کے لوگ ہیں، دنیا کے اعتبار سے آپ کے اندر وہ کون سی خوبی ہے جس کی بنیاد پر ہم آپ پر ایمان لائیں۔ ہمیں تو آپ جھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہدایت کے لئے مفادات اور مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دلائل اور رحمت خداوندی درکار ہوتی ہے اور یہ نعمت ہمیں حاصل ہے۔ پھر داعی الی اللہ کے لئے کچھ ضوابط بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین کے نام پر مالی مفادات کا طلبگار نہیں ہوں اور دین میں سب غریب و امیر برابر ہیں، لہٰذا میں غریبوں کو محض غربت کی بنیاد پر اپنے آپ سے جدا نہیںکرسکتا۔ میں نہ تو مال و دولت کے خزانوں کا دعوے دار ہوں نہ ہی غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہوں نہ ہی فرشتہ ہونے کا مدعی ہوں اور غریب مسلمان جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو صرف تمہیں خوش کرنے کے لئے میں یہ بھی نہیں کہتا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کوئی اجرو ثواب نہیں دیں گے، اللہ کا معاملہ تو نیت اور عمل کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ سردار جو اقتدار اور مال کے نشہ میں بدمست ہورہے تھے اور اپنی طاقت اور پیسہ کے زور پر انہوںنے پورا معاشرہ یرغمال بنایا ہوا تھا، ہٹ دھرمی اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو بتادیا کہ چند مخلص ایمان والوں کے علاوہ باقی قوم ضلالت و گمراہی کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہوچکی ہے لہٰذا ان پر عذاب آکر رہے گا آپ کشتی بنانا شروع کردیں اور ان لوگوں کی کسی قسم کی سفارش نہ کریں۔ نوح علیہ السلام کشتی بناتے رہے اور قوم کے گمراہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ نافرمانوں کو غرق کرنے کا فیصلہ فرماچکے تھے لہٰذا حکم دیا کہ ہر جانور کا ایک جوڑا اور تمام اہل ایمان کو کشتی میں سوار کرلو۔ آسمان سے پانی برسنے لگا اور زمین سے پانی ابلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے سفینہ ¿ نوح سیلاب کے پانی میں پہاڑ کی مانند تیرتی ہوئی نظر آنے لگی۔ کشتی کے سواروں کے علاوہ باقی سب غرق ہوگئے، نوح علیہ السلام کا نافرمان بیٹا بھی نہ بچ سکا۔ ایمان سے محرومی کی وجہ سے باپ کی نبوت بھی اس کے کسی کام نہ آسکی۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ اسلامی معاشرہ کے اجزائے ترکیبی قوم، وطن یا نسبی رشتہ داری نہیں بلکہ ایمان اور اعمال صالحہ ہیں، ایک نبی امی کا اس تاریخی واقعہ کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نبی برحق ہیں لہٰذا ایمان والوں کو صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ بہتر انجام متقیوں کے لئے ہے۔ اس کے بعد حضرت ہود علیہ السلام کا واقعہ ہے جنہوں نے اپنے دور کی ”سپر پاور“ قومِ عاد سے ٹکرلی تھی۔ یہ قوم ڈیل ڈول اور جسمانی طاقت میں بہت زیادہ تھی، ان کا دعویٰ تھا کہ دنیا میں ہم سے طاقت ور کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں سوچنا چاہئے کہ جس اللہ نے انہیں بنایا ہے وہ یقینا ان سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہود علیہ السلام نے قوم کو توحید کا پیغام سنایا اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے معافی مانگنے کی ترغیب دی اور بتایا کہ تم اگر توبہ و استغفار کرلوگے تو اللہ تمہیں معاشی اعتبار سے خود کفیل کردے گا اور بارش برسا کر تمہاری کھیتیوں کو سیراب کردے گا اور تمہاری طاقت و قوت میں مزید اضافہ کردے گا، قوم نے ایمان لانے کی بجائے مذاق اڑانا شروع کردیا، کہنے لگے، ہم تمہاری باتوں کو مان کر اپنے بتوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے بتوں نے تم پر اثر انداز ہوکر تمہارا دماغ خراب کردیا ہے تبھی تم اس قسم کی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو۔ حضرت ہود علیہ السلام نے ان کی باتوں پر مشتعل ہونے کی بجائے انہیں بتادیا کہ وہ بھی اللہ پر ایمان سے دستبردار نہیں ہوں گے اور اللہ کی طاقت و قوت کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر بھروسہ اور توکل میں اضافہ کردیں گے اور پھر قوم کو اللہ کے حکم سے یہ وعید بھی سنادی کہ اگر تم باز نہ آئے تو میرا رب تمہیں ہلاک کرکے تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اس سرزمین کا مالک بنا دے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ہماری رحمت کا مظہر تھا کہ ہم نے حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچالیا۔ قوم کی ہٹ دھرمی اور آیات خداوندی کا انکار اور اللہ کے فرستادہ رسول کی نافرمانی نے انہیں تباہ و ہلاک کرکے رکھ دیا۔ یہ ضدی اور عناد پرست قومِ عاد تھی جن پر عذاب آیا اور دنیا و آخرت میں لعنت کے مستحق قرار پائے۔ یہ سب قومِ عاد کے کفر کا نتیجہ تھا۔ حضرت ہود کی قوم ”عاد“ اللہ کی رحمت سے دور قرار دے دی گئی۔ اس کے بعد قوم ثمود کا تذکرہ ہے کہ صالح علیہ السلام نے انہیں پیغامِ توحید دیا اور انہیں غیر اللہ کی عبادت سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ انہیں بتایا کہ تمہیں اللہ نے ہی پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا اس اللہ کے سامنے توبہ و استغفار کرلو مگر وہ لوگ باز نہ آئے۔ بلکہ کہنے لگے کہ صالح! ہمیں تو آپ سے بڑی توقعات تھیں مگر آپ نے تو ہمارے آباءو اجداد کی ہی مخالفت شروع کردی اور ہمیں تو آپ کی نبوت میں شک ہے۔ ہم آپ کی نبوت کا اقرار صرف اس صورت میں کریں گے جب آپ سامنے والی پہاڑی سے اونٹنی نکالیں جو فوراً ہی بچہ دےدے۔ حضرت صالح نے فرمایا: میری قوم میں تو دلائل کی بنیاد پر توحید کی دعوت دے رہا ہوں اور تم بیجا مطالبات کررہے ہو میں تمہارے کہنے سے اللہ کی رحمت کو نہیں چھوڑوں گا ورنہ میری مدد کون کرے گا۔ تمہارے مطالبہ کے مطابق یہ رہی اونٹنی۔ اب تم اسے اللہ کی نشانی سمجھ کر حق کو تسلیم کرلو اور اس اونٹنی کو نقصان نہ پہنچاﺅ ورنہ تم پر عذاب خداوندی بہت جلد آجائے گا۔ ان لوگوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے مارڈالا جس پر انہیںتین دن کی مہلت دے کر ذلت آمیز عذاب کا نشانہ بنادیا گیا۔ جبریل علیہ السلام نے زور دار چیخ ماری جس کی دہشت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ اوندھے منہ گر کر ایسے ختم ہوئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا۔ جب ہمارا عذاب آیا تو ہم نے حضرت صالح اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ اس دن کی رسوائی سے بچالیا۔
اس کے بعد ابراہیم اور لوط علیہما لسلام کا تذکرہ ہے کہ ہمارے فرشتے قاصد بن کر انسانی شکل میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مہمانی کے طور پر بچھڑا ذبح کرکے بھونا اور انہیں کھانے کی دعوت دی۔ مگر انہوںنے کھانے میں کسی رغبت کا مظاہرہ نہیں کیا تو ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ لوگ کہیں دشمنی کی وجہ سے کھانے سے گریز نہ کررہے ہوں، لہٰذا ان سے خوف زدہ ہوگئے تو انہوںنے بتادیا کہ ہمارے نہ کھانے کی وجہ دشمنی نہیں ہے بلکہ ہم فرشتے ہیں اس لئے نہیں کھارہے۔ ہم تو قوم لوط کے لئے عذاب کے احکام لے کر آئے ہیں۔ہم راستہ میں آپ کو اولاد کی خوشخبری دینے آئے ہیں۔ اللہ تمہیں اسحاق نامی بیٹا اور یعقوب نامی پوتا عطا فرمائیں گے۔ ان کی بیوی قریب ہی کھڑی ہوئی یہ گفتگو سن رہی تھیں۔ عورتوں کے انداز گفتگو میں اپنے چہرہ پر دوہتڑ مارتی ہوئی کہنے لگیں کہ میں بانجھ او رمیرا شوہر بڑھاپے کی آخری عمر میں ہے۔ ہمارے ہاں کیسے اولاد ہوسکتی ہے۔ فرشتوں نے کہا اس میں تعجب اور حیرانی کی کون سی بات ہے۔ اللہ تمہارے گھرانے پر اپنی رحمتیں اور برکتیں اتارنا چاہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بڑے ہی نرم دل تھے اس خوشخبری کو سن کر لوط علیہ السلام کی قوم کی سفارش کرنے لگے۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کی ہلاکت کا اٹل فیصلہ ہوچکا ہے، آپ اس میں مداخلت نہ کریں۔ جب فرشتے لوط علیہ السلام کے پاس خوبصورت لڑکوں کے روپ میں پہنچے تو وہ لوگ ”اِغلام بازی“ کے شوق میں جمع ہوکر لوط علیہ السلام سے نووارد مہمانوں کو اپنے حوالہ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے، حضرت لوط نے انہیں بہت سمجھایا کہ مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو مگر وہ اپنے بیجا مطالبہ پر بضد رہے تو مہمانوںنے کہا: اے لوط! آپ پریشان نہ ہوں۔ ہم انسان نہیں فرشتے ہیں اور عذاب کا حکمنامہ لے کر آئے ہیں، اس لئے یہ لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔انہیں صرف ایک رات کی مہلت ہے، آپ فوراً یہاں سے نکلنے کا بندوبست کرکے چلے جائیں۔ آپ کی بیوی چونکہ اس مجرم قوم کے ساتھ شریک ہے لہٰذا وہ بھی نہیں بچ سکے گی۔ جب ہمارا عذاب آیا تو انہیں الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا اور ان پر نشان زدہ پتھروں کی بارش کرکے انہیں تباہ کردیا گیا۔ پھر قوم مدین کی حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ کٹ حجتی کا تذکرہ کرکے ان کی ہلاکت کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد موسیٰ و فرعون کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ، پھر جنت و جہنم کا ذکر اور آخر میں دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے لئے کچھ سنہری اصول (۱)استقامت کا مظاہرہ۔ (۲)حدود کی پابندی۔ (۳)ظالموں کی حمایت سے دست کشی۔ (۴)صبح و شام عبادت میں مشغولی۔ (۵)صبر کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین۔ اگر قوم میں اصلاح کی جدوجہد کرنے والے افراد پیدا ہوجائیں تو وہ ہلاکت سے بچ سکتی ہے۔

سورئہ یوسف

مکی سورت ہے جو ایک سو گیارہ آیات اور بارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ منفرد سورت ہے جس میں صرف ایک ہی واقعہ بیان ہوا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو قرآن کریم نے ”احسن القصص“ بہترین واقعہ قرار دیا ہے۔ اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے اور اپنوں کے مظالم اور ان کے مقابلہ میں اللہ کی مدد کا منظر دکھا کر حضور علیہ السلام کو اپنی قوم کے مظالم کے مقابلہ میں نصرت خداوندی حاصل ہونے کی بشارت ہے۔ سورت کے شروع میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے۔ پھر یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر ہے کہ انہوںنے گیارہ ستارے اور چاند اور سورج کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا جس کی تعبیر واضح تھی کہ ان کے گیارہ بھائی اور والدین ان کے سامنے جھکیں گے اور ان سب کے درمیان یوسف علیہ السلام کو امتیازی مقام حاصل ہوگا۔ اس خواب کے بعد بھائیوں نے حسد کرنا شروع کردیا اور یوسف علیہ السلام کے قتل کا پروگرام بناکر اپنے والد کو راضی کرکے جنگل میں لے گئے۔ انہیں کنویں میں پھینک کر کپڑوں کو کسی جانور کے خون سے آلودہ کرکے والد کو بتادیا کہ ہم جنگل میں کھیلتے رہے اور بھائی کو بھیڑیا کھاگیا۔ یعقوب علیہ السلام ان کی سازش کو سمجھ گئے اور یوسف علیہ السلام کے فراق میں پریشان رہنے لگے اور دن رات روتے رہے۔ ایک تجارتی قافلہ نے کنویں سے یوسف علیہ السلام کو نکال کر مصر کے بازار میں فروخت کردیا۔ یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی کے چرچے پھیل گئے، بادشاہ نے انہیں خرید کر اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے دیا اور اس طرح یوسف کنویں سے نکل کر شاہی محل میں رہنے لگے۔ شاہ مصر کی بیوی حسنِ یوسف پر ریجھ گئی اور انہیں ”دعوت گناہ“ دینے لگی، یوسف نے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کی۔ شوہر کو معلوم ہونے پر اس عورت نے بدکاری کا الزام لگادیا۔ اللہ نے اسی کے خاندان کے بچے سے حضرت یوسف کی بے گناہی کی شہادت دلوا کر انہیں باعزت بری کروادیا۔ جب مصر کی عورتوں نے بادشاہ کی بیوی پر ملامت کی تو اس نے حسن یوسف کا مظاہرہ کرنے کے لئے عورتوں کی دعوت کرکے یوسف علیہ السلام کو سامنے بلوایا۔ تمام عورتیں حسن یوسف کو دیکھ کر مبہوت ہوکر رہ گئیں اور پھلوں کو کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ بھی کاٹ بیٹھیں اور ان کے حسن کی تعریف کرکے انہیں دعوت گناہ دینے لگیں۔ یوسف علیہ السلام نے گناہ پر قید کو ترجیح دی اور بادشاہِ وقت نے اپنی عزت بچانے کی خاطر انہیں قید کردیا۔ یوسف علیہ السلام جیل میں بھی تبلیغ و تعلیم کے فریضہ سے غافل نہ رہے۔ دو قیدیوں نے خواب دیکھا یوسف علیہ السلام نے تعبیر دی جو حرف بہ حرف صحیح نکلی۔ ایک قیدی قتل ہوا دوسرا رہا ہوکر بادشاہ کا خادم بنا بادشاہ نے خواب دیکھا، اس خادم نے یوسف علیہ السلام سے تعبیر پوچھی انہوںنے بتایا کہ سات موٹی تگڑی گائیوں کو دبلی پتلی گائیوں کا کھانا اور سات خشک بالیوں کا تروتازہ بالیوں کو، مستقبل میں سات سالہ قحط کا اشارہ ہے۔ قحط کا مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی بیان کردیا۔ بادشاہ نے تعبیر سے متاثر ہوکر رہائی کا فیصلہ کیا مگر یوسف علیہ السلام نبوت کے دامن کو داغدار ہونے سے بچانے کے لئے تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر انہیں بے گناہ قرار دے کر رہائی ملی اور شاہ مصر نے اپنی کابینہ میں شامل کرنے کا اعلان کردیا۔

وما ابري- ١٣-خلاصہ تیرواں پارہ


تیرہویں پارہ کے اہم مضامین




حکومت وقت کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمہ سے برا ت ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو خود پنداری اور عجب میں مبتلاءکرسکتا تھا اس لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ گناہ سے بچنے میں میرا کوئی ذاتی کمال نہیں بلکہ اللہ کا فضل و کرم شامل حال تھا۔ آپ کو وزارت خزانہ کی ذمہ داری سونپ دی گئی اور یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظہر تھا کہ جیل کی پستیوں سے اقتدار کی بلندیاں نصیب فرمادیں۔ کنعان سے آنے والے تاجروں میں برادران یوسف بھی شامل تھے۔ انہیں علم نہیں تھا کہ ان کا بھائی وزارت خزانہ کے منصب پر فائز ہے مگر یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کو پہچان چکے تھے۔ بادشاہ کے خواب کے مطابق حضرت یوسف نے اناج کا مناسب ذخیرہ کیا ہواتھا۔ قحط سالی شروع ہوچکی تھی اور یہ لوگ کنعان سے اناج خریدنے کے لئے آئے تھے، حضرت یوسف نے پہچاننے کے باوجود ان سے ان کے حالات معلوم کئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم بارہ بھائی ہیں ایک جنگل میں ہلاک ہوگیا تھا۔ والد اس کے صدمہ سے پریشان ہے اور اس نے چھوٹے بھائی کو اپنی تسلی اور تسکین کے لئے اپنے پاس روکا ہوا ہے اور ہم تجارت کی غرض سے آئے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے انہیں کافی خیرات دے کر واپس روانہ کیا اور آئندہ چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لانے کا وعدہ لے لیا۔ انہوں نے واپس جاکر بادشاہ کے حسن سلوک کا تذکرہ کیا اور سامان کھول کر دیکھا تو ان کا مال بھی پورا موجود تھا اور ان کی ضرورت کا غلہ و سامان بھی تھا۔ انہوں نے والد صاحب کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ چھوٹے بھائی (بنیامین) کو بھی بھیج دیں تاکہ ایک مزید آدمی کا راشن بھی مل سکے۔ والد نے کہا کہ تم پہلے یوسف کے بارے میں میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچا چکے ہو مگر گھریلو اخراجات کی مجبوری ہے اس لئے اللہ کی حفاظت میں اسے تمہارے ساتھ بھیجتا ہوں۔ جب برادران یوسف چھوٹے بھائی کے ہمراہ دوبارہ پہنچے تو یوسف علیہ السلام نے موقع پاکر اپنے بھائی بنیامین کو ساری صورتحال سے آگاہ کرکے اسے اپنے پاس روکنے کا حیلہ یہ کیا کہ مصر کے قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اسے غلام بنا کر اپنے پاس رکھ لیا جاتا تھا۔ شاہی کارندوں نے بنیامین کے سامان میں ایک پیمانہ چھپا کر تلاشی کے دوران برآمد کرلیا۔ برادران یوسف پریشان ہوگئے ہم پہلے ہی والد کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اب کیا جواب دیں گے۔ مجبوراً واپس جاکر یعقوب علیہ السلام کو بنیامین کے سامان سے پیمانے کی برآمدگی اور مصری قانون کے مطابق اس کی گرفتاری کی خبر دی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا غم بے انتہا بڑھ گیا اور یوسف کی یاد کے ساتھ بنیامین کا غم بھی شامل ہوگیا۔ برادران یوسف نے کہا کہ یوسف کب کا مر کھپ چکا اور اس کی یاد میں ہلکان ہورہے ہیں۔ والد نے کہا میرے بیٹو! مجھے یقین ہے کہ یوسف اور اس کا بھائی مجھے مل کر رہیں گے۔ میں اللہ سے مایوس نہیں اللہ سے مایوس تو کافر ہوا کرتے ہیں۔ جاﺅ دونوں کو تلاش کرو اور گھر کے اخراجات کا انتظام بھی کرکے آﺅ۔ قحط سالی کی شدت میں ان کے پاس تجارت کے لئے بھی کچھ نہیں بچا تھا۔ یہ لوگ پھر مصر پہنچ گئے اور شاہ مصر کے انتقال کے بعد یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے عہدہ پر فائز ہوچکے تھے۔ انہوںنے جاکر اپنی بپتا سنائی اور خیرات و غلہ کے لئے درخواست گزار ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام نے اس موقع پر ان کی حالت زار اور والد کی پریشانی کے پیشِ نظر صورتحال واضح کرنے کے لئے انہیں یاد دلایا کہ یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کو تم کیسے بھول گئے ہو؟ ان کا ماتھا ٹھنکا اور وہ حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ آپ یوسف ہی تو نہیں ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے بتادیا کہ میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں دوبارہ اکٹھا کردیا۔ یوسف علیہ السلام جو کہ مصر کے اقتدار اعلیٰ پر متمکن ہونے کے ساتھ ساتھ نبوت کے منصب اعلیٰ پر بھی فائز تھے، ایمان اور تحمل کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے۔ انہوںنے بھائیوں کی پریشانی اور جرم کے طشت از بام ہونے پر گھبراہٹ کو بھانپ لیا اور فرمایا کہ آپ لوگوں سے کسی قسم کا انتقام نہیں لیا جائے گا۔ میں تمام زیادتیوں اور مظالم کو معاف کرتا ہوں۔ اس حلم و بردباری نے ان پر بڑا اثر کیا اور انہوںنے بھی اعتراف جرم کے ساتھ اپنے لئے عفو و درگزر کی درخواست پیش کردی۔ بیٹے کے غم میں رو رو کر حضرت یعقوب اپنی بینائی سے محروم ہوچکے تھے۔ یوسف علیہ السلام نے معجزانہ تاثیر کی حامل اپنی قمیص روانہ کردی کہ باپ کے چہرہ پر ڈالوگے تو ان کی بنیائی واپس آجائے گی۔ جیسے ہی قاصد قمیص لے کر مصر سے روانہ ہوا کنعان میں حضرت یعقوب نے حاضرین مجلس سے کہا کہ مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ آپ نے پھر یوسف کی رٹ لگالی ہے۔ مگر اتنی دیر میں قاصد پہنچ چکا تھا اور قمیص کا کرشمہ ظاہر ہوکر ان کی بینائی مل چکی تھی۔ بیٹوں کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہونے لگا، انہوںنے والد صاحب سے معافی کی درخواست کی والد صاحب نے خود بھی معاف کردیا اور اللہ سے بھی ان کے لئے مغفرت طلب کی اور مصر کے لئے روانہ ہوگئے۔ شہر سے باہر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا اور دربار شاہی میں پہنچتے ہی والدین اور گیارہ بھائی یوسف کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے خواب کی عملی تعبیر پالی اور تشکر آمیز جذبات سے اللہ کے حضور دست بہ دعا ہوگئے کہ اللہ تونے مجھے نبوت و حکمرانی سے سرفراز فرمایا اور میرے جان کے دشمن بھائیوںکے دل صاف کرکے مجھے میرے ساتھ ملایا تو ہی میرا سرپرست اور ولی ہے، مجھے اسلام پر ثابت قدم رکھ اور اپنے نیکو کار بندوں میں شامل رکھ۔ اس واقعہ میں بہت سے دروس و عبر موجود ہیں۔ باپ کی محبت سے بھائیوں کی عداوت اور اندھے کنویں سے شاہی محل اور وہاں سے جیل اور پھر اقتدار مصر پر فائز ہوکر والدین اور بھائیوں کے سامنے سرخروئی اس سارے منظر میں مکہ مکرمہ کے اندر حضور علیہ السلام اور اپنوں کے مظالم کا شکار آپ کے ساتھیوں کے لئے بشارت موجود تھی کہ ایک دن مشرکین مکہ بھی آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں گے اور دس رمضان کو تاریخ نے ہمیشہ کے لئے منظر محفوظ کرلیا کہ کعبة اللہ کی دہلیز پر کھڑے ہوکر حضور علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام والا جملہ لا تثریب علیکم الیوم (آج تم پر کوئی گرفت یا انتقامی کارروائی نہیں ہوگی) کہہ کر اپنی قوم کو معاف کرنے کا اعلان کردیا۔ پھر قرآن کریم نے ”جمہوریت“ کی بنیاد ”اکثریت و اقلیت“ پر ضرب کاری لگاتے ہوئے بتایا کہ دنیا میں اچھے لوگ کبھی اکثریت میں نہیں رہے جس سے یہ منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ ”جمہوری“ نظام سے پاکیزہ معاشرہ اور اچھی حکومت کبھی بھی تشکیل نہیں پاسکتی۔ نبوت کا راستہ دلائل کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، نصرت خداوندی تب آتی ہے جب اللہ کے علاوہ تمام سہاروں سے مسلمان برا ت کا اظہار کردے اور ہر طرف سے مایوس ہوکر ایک اللہ سے اپنا رشتہ استوار کرلے۔ قرآن کریم قصے کہانیاں سنا کر جی نہیں بہلاتا بلکہ تاریخی واقعات سے کارکنوں کی تربیت کرتا ہے اور مسلمانوں کو اس سے ہدایت و رحمت کی دولت میسر آتی ہے۔

سورة الرعد


مدنی سورت ہے۔ چھیالیس آیتوں اور چھ رکوع پر مشتمل ہے۔ مدنی سورت ہونے کے باوجود اس میں قانون سازی کی بجائے عقیدہ توحید و آخرت پر بحث کی گئی ہے۔ پہلی آیت میں حقانیت قرآن کو بیان کیا اور توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد پیش فرمائے۔ منکرین کو قیامت کے دن طوق اور بیڑیاں ڈال کر جہنم رسید کردیا جائے گا۔ نشانیوں کا مطالبہ کرنے والوں کو بتادو کہ میں تو ڈرانے اور انسانیت کو پیغامِ ہدایت سنانے والا ہوں، پھر اللہ کے علم و قدرت کا مزید بیان ہے۔ ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ اسے اللہ ہی جانتے ہیں۔ جدید طب زیادہ سے زیادہ بچہ کی جنس (Sex) اور صحت کے بارے میں الٹراساﺅنڈ کی مدد سے اندازہ لگاسکتی ہے، لیکن نیکی بدی، غربت و امارت، علم و جہالت اور زندگی کے ماہ و سال ان تمام باتوں کا علم بچہ کے بارے میں اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ انسانی حفاظت کے لئے فرشتوں کے ذریعہ اللہ نے سیکیورٹی نظام بنایا ہوا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ کہ جب تک کسی قوم کی عملی زندگی نہیں بدلتی اللہ اس کی حالت کو نہیں بدلتے۔ بارش سے بھرے ہوئے بادل، بجلی کی چمک اور کڑک اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں۔ فرشتے بھی خوف اور ڈر کے ساتھ اللہ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔
صحیح معنی میں دعا تو اللہ ہی سے مانگی جاسکتی ہے۔ غیر اللہ سے مانگنے والوں کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی پیاسا دور سے ہاتھ پھیلاکر پانی اپنے منہ تک پہنچانے کی ناکام کوشش کرے۔ پھر حق و باطل کی دو مثالیں: آسمان سے بارش برسی جس نے سیلاب کی شکل اختیار کرلی، غیر مفید جھاگ اور کوڑا کباڑ اوپر ہوتا ہے اور مفید پانی نیچے ہوتا ہے۔ آگ میں زیور پگھلایا تو غیر مفید کھوٹ اوپر آجاتی ہے اورمفید سونا چاندی نیچے رہ جاتا ہے، ایسے ہی حق و باطل کے مقابلہ میں باطل کے اوپر آجانے سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ حق کے ماننے والے اور منکرین کی مثال ایسی ہے جیسے آنکھوں والا اور اندھا۔ عقل والے ہی درس عبرت حاصل کیا کرتے ہیں پھر مالی اور جسمانی نیکی اور برائی کرنے والوں کا تذکرہ کرکے جنت و جہنم میں ان کے ٹھکانے کو بیان کیا۔ رزق میں کمی زیادتی اللہ ہی کرتے ہیں۔ دنیاوی نعمتیں تو عارضی فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو اللہ کے تذکرہ سے ہی سکون ملتا ہے۔ ان کے لئے مبارک اور بہترین ٹھکانہ ہے۔ لوگوں کی ہدایت کو کرامات اور معجزات کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا بلکہ ہر قوم کی ہدایت کے لئے انبیاءو رسل نے مستقل محنت کی ہے۔ اگر کسی کلام کی تاثیر سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹاکر چلایا جاسکے، زمین کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جاسکے یا مردوں کو زندہ کرکے ان سے گفتگو کی جاسکے تو وہ کلام یہ قرآن ہی ہوسکتا ہے۔ نشانیاں طلب کرنے والوں کے لئے اس سے بڑی نشانی اور کیا ہوسکتی ہے؟ پہلے انبیاءو رسل کا مذاق اڑانے والوں کو مہلت دے کر عبرتناک طریقہ سے پکڑاگیا لہٰذا آپ کا مذاق اڑانے والے بھی بچ نہیں سکیں گے۔ نبی کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں ہوتی وہ تو عام انسانی زندگی گزارنے والے افراد ہوتے ہیں۔ بیوی بچے اور بشری تقاضے ان کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی دکھانے کا انہیں اختیار نہیں ہوتا۔ انہیں غور کرنا چاہئے کہ جب سے نزول قرآن شروع ہوا ہے اہل ایمان پھیلتے جارہے ہیں اور کفر کا دائرہ محدود ہوتا جارہا ہے اور یہ تنگ جزیرہ میں محصور ہوتے جارہے ہیں۔ اللہ کے فیصلہ کے بعد کسی دوسرے کا فیصلہ نہیں چل سکتا۔ اے میرے نبی! ان کافروں کی طرف سے آپ کی رسالت کا انکار کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ بھی اور اہل علم بھی آپ کی رسالت کی گواہی دینے کے لئے کافی ہیں۔

سورئہ ابراہیم


مکی سورت ہے۔ باون آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورت کا مرکزی مضمون ”اثبات رسالت“ ہے جبکہ جنت اور جہنم کا تذکرہ اور ظالموں کی عبرتناک گرفت کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ انبیاءکے اختصار کے ساتھ تذکرہ ہے مگر ابو الانبیاءابراہیم علیہ السلام کی اپنے معصوم بچے اور بیوی کو لق و دق صحراءمیں چھوڑنے کا خصوصیت کے ساتھ تفصیل سے تذکرہ ہے۔ ابتداءسورت میں نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انسان اس سے کفر کی ظلمتوں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں آجاتا ہے۔ پھر بتایا گیا ہے کہ ہر قوم میں اس کی زبان میں سمجھانے والے نبی ہم نے مبعوث کئے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ ہے۔ اللہ نے بنی اسرائیل پر نعمتیں اتاریں فرعون کے بدترین تعذیب کے طریقوں سے نجات دی۔ شکر کرنے سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ناشکری سے نعمت چھن جاتی ہے۔ قوم نوح، عاد، ثمود کا مختصر تذکرہ اور نبیوں کے خلاف ان کے گھسے پٹے اعتراض کا بیان ہے کہ تم ہمارے جیسے انسان ہو نبی کیسے ہوسکتے ہو؟ ہمیں ہمارے آباءو اجداد کے طریقہ سے ہٹانا چاہتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے جواب میں فرمایا کہ ظالم اور معاند و متکبر ہلاک ہوں گے اور ان کی جگہ انبیاءکے متبعین زمین کے اقتدار کے وارث بنادئے جائیں گے۔ کافروںکے اعمال کی مثال راکھ کی طرح ہے جب تیز ہوا چلتی ہے تو اسے اڑا کر لے جاتی ہے۔ قیامت کے دن جب مجرمین کو آپس میں بات چیت کا موقع ملے گا تو وہ ایک دوسرے پر اعتراضات کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالیں گے کہیں گے کہ دنیا میں تم نے ہم سے گناہ کروائے اب عذاب کو بھی ہم سے ہٹواﺅ۔ تو وہ کہیں گے کہ ہم تو خود عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں تمہیں کس طرح بچاسکتے ہیں۔ پھر جہنمی شیطان کی طرف متوجہ ہوکر اسے ملامت کریں گے، وہ کہے گا کہ مجھے کیوں ملامت کرتے ہو میں نے تو ذرا سا اشارہ کیا تھا تم خود ہی ا س پر چل کر گناہوںکے مرتکب بنے ہو لہٰذانہ تو میں اپنے آپ سے عذاب کو ہٹا سکتا ہوں اور نہ ہی تم سے ہٹا سکتا ہوں۔ پھر ایمان اور کفر کی مثال دی کہ کلمہ طیبہ کی بدولت ایمان کا مضبوط اور تناور درخت بن جاتا ہے جسے آندھی اور طوفان بھی نقصان نہیں پہنچاسکتے جبکہ کلمہ خبیثہ کے نتیجہ میں کفر کی کمزور جھاڑیاں اگتی ہیں جو معمولی اشارہ سے زمین سے اکھڑجاتی ہیں۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی اور دعاءکا تذکرہ ہے کہ معصوم بچے اور بیوی کو اللہ کے حکم سے جنگل بیابان میں سکونت پذیر کردیا اور اللہ سے دعاءمانگی، لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرما۔ پھلوں اور سبزیوں اور ہر قسم کی ضروریات زندگی میں برکت عطاءفرما۔ مجھے اورمیری اولاد کو نماز کا پابند بنا اور ہمارے ساتھ تمام اہل ایمان کی مغفرت فرما۔ اس کے بعد ظالموں کی گرفت کے آسمانی نظام کا تذکرہ ہے کہ ظالموں کو آزادی کے ساتھ دندناتے ہوئے پھرتا دیکھ کر دھوکا میں نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اور جب اچانک ان کی گرفت کے لئے نظام الٰہی متحرک ہوگا تو انہیں کوئی بچا نہیں سکے گا۔

Wednesday 22 June 2016

ربما- ١٤-چودھویں پارے کا خلاصہ



سورة الحجر


مکی سورت ہے۔ اس میں ننانوے آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ اس سورت کی دوسری آیت سے چودھواں پارہ شروع ہورہا ہے۔ اس مختصر سورت میں عقیدئہ اسلام کے تینوں بنیادی مضامین توحید و رسالت اور قیامت پر منفرد انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ پہلی آیت میں قرآن کریم کے عظیم اور واضح کتاب ہونے کا بیان ہے۔ چودھویں پارے کی ابتداءمیں کہا گیا ہے کہ کافر اگرچہ آج مسلمان ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں مگر ایک وقت آنے والا ہے جب یہ تمنا کریں گے کہ کاش! یہ لوگ مسلمان ہوتے۔ لہٰذا آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں یہ کھاتے پیتے رہیں اور دنیا کے عارضی مفادات میں مگن رہیں اورامیدوں اور آرزوﺅں کے دھوکے میں پڑے رہیں عنقریب انہیں دنیا کی بے ثباتی کا پتہ چل جائے گا۔ یہ لوگ حضور علیہ السلام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیںکہ جس شخص پر قرآن اتارا گیا ہے وہ تو مجنون اور دیوانہ ہے۔ اگر یہ سچا رسول ہوتا تو ہر وقت فرشتوں کو اپنے ساتھ رکھتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم فرشتوں کو بھیجیں گے تو عذاب دے کر بھیجیں گے پھر ان لوگوں کو کسی قسم کی مہلت بھی نہیں مل سکے گی۔ اس قرآن کریم کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ حضور علیہ السلام کی تسلی کے لئے اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ کافروںکی طرف سے مذاق اڑانے اور نشانیوں کا مطالبہ کرنے پر آپ دل گرفتہ نہ ہوں۔ رسالت کی ”وادی پُرخار“ ایسی ہی ہے کہ پہلے بھی جتنے انبیاءآتے رہے ان کے ساتھ بھی استہزاءو تمسخر کیا گیا۔ مجرمین کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ یہ ہٹ دھرم ہیں نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اگر ہم آسمان کا دروازہ کھول کر انہیں اوپر چڑھنے کا موقع فراہم کردیں اور یہ لوگ ہماری نشانیوں اور مظاہر قدرت کا بچشم خود مشاہدہ بھی کرلیں تو یہ کہنے لگیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے بلکہ ہم پر محمد علیہ السلام کا جادو چل گیا ہے۔ پھر قدرت خداوندی اور توحید باری تعالیٰ کے کائناتی شواہد پیش کرنے شروع کردیئے۔ ہم نے آسمان کو دیکھنے والوں کے لئے خوبصورت بنایا ہے اور اس میں چوکیاں قائم کرکے شیطانوں سے محفوظ بنادیا ہے اور اگر کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو ”شہاب مبین“ اس کا پیچھا کرتا ہے، زمین کو ہم نے پھیلا کر اس میں پہاڑ گاڑ دیئے ہیں تاکہ یہ ڈانواں ڈول ہونے سے بچی رہے اور اس میں مناسب چیزیں ہم نے اگادی ہیں۔ تمہاری معیشت کا سامان ہم نے اس زمین کے اندر ہی رکھا ہے۔ ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں دنیا میں ہم ایک مقررہ اندازہ کے مطابق ہی اتارتے ہیں۔ بار آور کرنے والی ہوائیں ہم ہی چلاتے ہیں جس کے نتیجہ میں آسمان سے پانی برسا کر تمہیں سیراب کرتے ہیں۔ ہم نے تمہارے لئے پانی ذخیرہ کررکھا ہے تم اسے محفوظ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہو۔ زندگی اور موت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم پہلوں اور پچھلوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور قیامت میں ان سب کو جمع کرلیں گے۔ پھر تخلیق جن و انس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: انسان کو بدبودار چکنی مٹی سے پیدا کیا جو خشک ہونے کے بعد ٹھن ٹھن بجنے لگتی ہے اور جنات کو تپتی ہوئی آگ سے تخلیق کیا۔ انسان کو پیدا کرکے مسجود ملائک بنایا۔ شیطان نے سجدہ سے انکار کیا تو اسے راندئہ درگاہ کردیا اور قیامت تک کے لئے لعنت کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا۔ شیطان نے قیامت تک کے لئے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قسم کھالی مگر ہم نے بتادیا کہ مفاد پرست ہی تمہاری گمراہی کا شکار بنیں گے۔ مخلصین پر تمہارا زور نہیں چلے گا۔ وہ لوگ ہماری عالی شان صراط مستقیم پر چلنے والے ہوں گے۔ پھر جنت و جہنم اور رحمت خداوندی کے تذکرہ کے بعد حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی بدکردار قوم اور اس کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا اور اس کے بعد قوم ثمود اور ان کی تباہ شدہ بستی ”حجِر“ کو درس عبرت کے لئے ذکر فرمایا۔ پھر عظمت قرآن اور خاص طور پر بار بار دہرائی جانے والی سورئہ فاتحہ کی سات آیتوں کا ذکر کیا۔ کافروںکے سامانِ تعیش کو للچائی ہوئی نظروں کے ساتھ نہ دیکھنے کی تلقین اور اپنے پیروکار مومنین کے لئے نرم رویہ اختیار کرنے کا حکم دے کر فرمایا کہ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر ڈٹے رہئے اور کافروں کے استہزاءکی پرواہ نہ کیجئے ان کے لئے ہم ہی کافی ہیں انہیں عنقریب پتہ چل جائے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کی دل آزاری ہوتی ہے مگر آپ صبر سے کام لیتے ہوئے تسبیح و تحمید میں مشغول رہیں اور مرتے دم تک سجدہ ریز ہوکر اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیں۔

سورة النحل


مکی سورت ہے، اس میں ایک سو اٹھائیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں۔ نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں نحل کے محیر العقول طریقہ پر چھتہ بنانے اور شہد پیدا کرنے کی صلاحیت کا تذکرہ ہے۔ اس لئے پوری سورت کو اس کے نام سے موسوم کردیا گیا ہے۔ مشرکین کی طرف سے قیامت کے مطالبہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت آیا ہی چاہتی ہے۔ تمہیںجلدی کس بات کی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اپنا پیغام دے کر بھیج رہے ہیں کہ لوگوں کو ڈرائیں کہ میں ہی معبود ہوں میرے علاوہ کسی دوسرے کی پرستش نہ کریں۔ میں نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور انسان کو نطفہ سے تخلیق کیا پھر بھی وہ جھگڑالو بن گیا۔ انسان کی خوراک، اس کے منافع خاص طور پر سردیوں میں گرمائش کے حصول کے لئے جانور پیدا کئے۔ صبح و شام جب ان کے ریوڑوں کے ریوڑ چرنے کے لئے آتے اور جاتے ہیں تو کتنے خوشنما معلوم ہوتے ہیں۔ تمہارے بھاری سامان کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے میں کام آتے ہیں۔ گدھے، گھوڑے ، خچر اسی نے تمہاری تمہاری سواری کے لئے پیدا کئے اور تمہارے لئے ایسی سواریاں ( مثلاً ہوائی جہاز وغیرہ) بھی مستقبل میںپیدا کرے گا جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو۔ پھر بارش اور اس کے اثرات سے انسانوں اور جانوروں کی سیرابی اور چراگاہوں کی آبادی، فصلوں، زیتون، کھجور، انگور اور ہرقسم کے پھل پھول کے ظاہر ہونے میں عقل استعمال کرکے غور و خوض کرنے اور نصیحت حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔ سمندری دنیا کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ بحری جہازوں اور کشتیوں کی مدد سے پانی میں سفر کرنے اور سامان منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جبکہ اس سے تمہیں مچھلیوں کا ترو تازہ گوشت اور زیورات بنانے کے لئے موتی اور جواہر بھی فراہم ہوتے ہیں۔ مظاہر قدرت کا مستقل تذکرہ جاری ہے اور اس سے خالقِ کائنات تک رسائی حاصل کرنے کی تعلیم ہے۔ انسان کی نفسیات میں احسان شناسی کا مادہ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے احسانات و انعامات کا تذکرہ کرکے فرمارہے ہیں کہ ہماری نعمتیں بے حد و حساب ہیں اگر تم شمار کرنا بھی چاہو تو نہیں کرسکتے ہو۔ تمہیں چاہئے کہ خفیہ و علانیہ ہر ڈھکی چھپی کا علم رکھنے والے رب کی خالقیت و عبودیت کا اقرار کرلو۔ تم سے پہلے لوگوں نے بھی سازشیں کرکے آسمانی تعلیمات کا انکار کیا تھا۔ ان پر ایسا عذاب مسلط کیا گیا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور ان کی بستیاں چھتوں کے ساتھ تہس نہس کرکے رکھ دی گئیں۔ پھر ان لوگوں کو قیامت کی ذلت و رسوائی سے الگ واسطہ پڑے گا۔ وہاں ان کے شرکاءبھی کسی کام نہیں آئیں گے۔ ایسے ظالموں کو بدترین ٹھکانہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ جلنا پڑے گا۔ جبکہ نیکوکار اور متقی لوگوں کا بہترین ٹھکانہ جنت ہوگا، جس میں باغات اور نہریں ہوں گی اور یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس میں رہیں گے۔ مشرک لوگ اپنے جرائم کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے اسے اللہ کی مشیت کا کرشمہ قرار دینا چاہتے ہیں۔ پہلی مجرم قومیں بھی ایسا ہی کرتی رہی ہیں حالانکہ ہمارے رسول ہر امت کو یہ تعلیم دیتے رہے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ بعض لوگوں نے ہماری بات کو تسلیم کیا اور بعض نے انکار کیا تو ان پر ہمارا عذاب آکر رہا۔ دنیا میں چل پھر کر ایسے جھوٹوں کے انجام سے تم عبرت حاصل کرسکتے ہو۔ یہ لوگ قسمیں کھا کھاکر کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم زندہ کرکے دکھائیں گے۔ مردوں کو زندہ کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے ہم ”کن فیکون“ کے ایک حکم سے تمام انسانوں کو زندہ کردیں گے۔ اللہ کے نام پر ہجرت کرنے والوں کو بہتر ٹھکانہ فراہم کرنے کی نوید اور انہیں صبر و توکل کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین ہے۔ انبیاءو رسل انسان ہوتے ہیں اور دلائل و شواہد کی روشنی میں توحید بیان کرتے ہیں۔ گناہوں کو دنیا میں پھیلانے کی سازشیں کرنے والے اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ یہ لوگ دائیں بائیں جھکنے اور بڑھنے والے سائے میں غور کرکے اس نتیجہ پر کیوں نہیں پہنچ جاتے کہ زمین و آسمان کی ہر مخلوق حتی کہ فرشتے بھی اللہ ہی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور کسی قسم کا تکبر نہیں کرتے۔ بلندیوںکے مالک اپنے رب کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی حرف بہ حرف پابندی کرتے ہیں۔بعض مشرکین کے تصور کی نفی کی گئی ہے کہ پوری کائنات کو دو خدا چلا رہے ہیں۔ خیر کا خدا ”یزدان“ ہے اور شر کا خدا ”اہرمن“ ہے اور اسی سے یہ نظریہ بھی باطل قرار پاتا ہے کہ آسمانوںکا خدا ”احد“ ہے اور زمین کا خدا ”میم“ کے پردہ میں ”احمد“ ہے۔ پھر اللہ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی دندان شکن انداز میں تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ مشرکین کہتے ہیں کہ فرشتے چونکہ نظر نہیں آتے، عورتوں کی طرح چھپے رہتے ہیں اس لئے وہ اللہ کی بیٹیاںہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم خود تو بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے اگر کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی جائے تو اس کے چہرہ پر مایوسی چھا جاتی ہے اور وہ منہ چھپائے پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں ذلت و رسوائی اٹھانے کے لئے بیٹی کی پرورش کروں یا اسے ”زندہ درگور“ کردوں؟ اس کے باوجود اللہ کے لئے بیٹیوںکا عقیدہ قائم کرکے تم نے بدترین فیصلہ کیا ہے۔ انسانوں کے جرائم اور مظالم اس قدر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر گرفت کرنے پر آجائیں تو کوئی جاندار زمین پر زندہ نہ بچ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے جرائم پر محاسبہ کے نظام کو قیامت کے دن تک مو خر کیا ہوا ہے جسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ پھر اللہ نے کائناتی شواہد سے توحید و رسالت کے مزید دلائل پیش کرکے جانوروں کی مثال شروع کردی۔ چوپایوں میں تمہارے لئے عبرت کا سامان موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ خون اور گوبر کے بیچ میں سے خالص مزیدار دودھ تمہیں پلاتے ہیں۔ شہد کی مکھی میں مظاہر قدرت کا مطالعہ کرکے دیکھو، اسے ہم نے پہاڑوں گھروں کی چھتوں اور درختوں پر چھتہ بنانے کا سلیقہ عطاءفرمایا ہے۔ پھر ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں سے رس چوس کر دور دراز کا سفر طے کرکے اپنے چھتہ تک پہنچنے کی سمجھ عطاءفرمائی پھر مکھی کے پیٹ سے مختلف رنگوں اور ذائقوںکا شہد نکالا جو انسانوںکے مختلف امراض کے لئے شفاءاور صحت عطاءکرنے والا ہے۔ سوچ و بچار کرنے والوںکے لئے اس میں دلائل موجود ہیں۔ اللہ ہی تمہیں مارتے اور جِلاتے ہیں اور تم میں سے بعض کو بڑھاپے کی عمر تک پہنچادیتے ہیں کہ اس کی یاد داشت کمزور ہوجاتی ہے اور وہ معلومات رکھنے کے باوجود کچھ سمجھنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ اللہ بڑے علم و قدرت والے ہیں۔ اس کے بعد توحید کے مزید دلائل پیش کرنے کے بعد معبود حقیقی اور معبودان باطلہ کا فرق دو مثالوں سے سمجھایا ہے۔ (۱)ایک غلام ہے جو اپنے جان و مال کے معاملے میں بالکل بے اختیار ہے مالک کی اجازت کے بغیر کچھ نہیںکرسکتا۔ دوسرا آزاد شخص ہے جو وسیع مال و دولت رکھتا ہے اور شب و روز فقراءو مساکین کی مدد کرتا ہے۔ جس طرح ان دونوں افراد کو برابر سمجھنے والا عدل و انصاف کے تقاضوں کا خون کرنے والا ہے اسی طرح معبود حقیقی کے ساتھ بتوں کو شریک سمجھنے والا عقل و خردسے عاری ہے۔ (۲)ایک غلام گونگا، بہرا، کسی کام کا نہیں ہے۔ اپنے مالک پر بوجھ بنا ہوا ہے اور دوسرا معتدل طرز زندگی رکھنے والا اور معاشرہ میں خیر اور نیکی کو پھیلانے والا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ دلائل توحید اور روز قیامت کا تذکرہ جاری ہے۔ قیامت کے دن مشرکین اپنے معبودوں سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے عہد وفا باندھنے کی کوشش کریں گے مگر وقت گزر چکا ہوگا اور اللہ کے دین کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے کافروں کو ان کے فساد پھیلانے کے جرم میں سزا پر سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے بعدقرآن کریم کے ہدایت و رحمت ہونے کا بیان ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور غریب پروری کی تعلیم دیتے ہیں اور ظلم و بے حیائی اور منکرات سے باز رہنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ اللہ کا عہد پورا کرو اور ایمان و اعمال صالحہ کی نعمت سے سرفراز ہونے کے بعد اس کو چھوڑ کر کفر و ارتداد کا راستہ اختیار کرنا ایسا ہے جیسے کوئی عورت روئی کاتنے کے بعد تیار ہونے والے ”سوت“ کو الجھاکر اپنی ساری محنت کو ضائع کردے، مساوات مرد و زن کا ضابطہ کہ جسمانی ساخت کے پیش نظر فرائض و حقوق کے اختلاف کے باوجود ایمان و اعمال صالحہ کے نتیجہ میں پاکیزہ زندگی اور اجر و ثواب کے حصول میں دونوں برابر ہیں۔ قرآن کریم کی حقانیت بیان کرتے ہوئے مشرکین کے اس لغو اعتراض کا جواب دیا کہ شام کے سفر میں عیسائی راہب سے ملاقات کے موقع پر اس سے یہ قرآن سیکھ کر محمد علیہ السلام ہمیں سناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی باتیں یقینا آپ کی دل آزاری کا باعث بنتی ہیں، مگر موٹی عقل رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ عجمی راہب آپ کو عربی قرآن کی تعلیم کیسے دے سکتا ہے؟ پھر ہجرت و جہاد اور استقامت کا پیکر اہل ایمان کو مغفرت و رحمت کی بشارت سنائی ہے اور بتایا ہے کہ کسی شہر یا علاقہ پر اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں سے امن وامان اور خوشحالی کا دور دورہ ہو تو اللہ اس وقت تک اس میں تبدیلی نہیں لاتے جب تک وہاں کے باشندے نافرمانی اور گناہوں پر نہ اتر آئیں۔ اس کے بعد محرمات کی مختصر فہرست کا اعادہ ہے اور اللہ کے حلال کردہ کو کھانے اور حرام کردہ سے گریز کرنے کا حکم ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کے پسندیدہ طرز زندگی کو اپنانے کا حکم اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے والوں کے لئے زرین ضوابط کا تذکرہ ہے کہ حکمت، موعظہ حسنہ اور سنجیدہ بحث و مباحثہ کی مدد سے اللہ کی طرف لوگوں کو بلایا جائے۔ پھر انتقام اور بدلہ لینے کا قانون بتایا کہ اس میں مساوات پیش نظر رہے اور حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اللہ کی مدد اور توفیق سے دین اسلام پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کے ساتھ آخر میں خوشخبری سنادی کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ اور احسان (اعلیٰ کردار) کے حاملین کی ہر قدم پر مدد و نصرت فرمایا کرتے ہیں۔