Sunday 27 August 2023

Hadith No -20- Kitaab-ul-Eeman  (کتاب الاایمان) Bukhaari Shareef (Ahaadees Mubaarkah)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ ، أَمَرَهُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ ، قَالُوا : إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ، فَيَغْضَبُ حَتَّى يُعْرَفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ ، ثُمَّ يَقُولُ : إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللَّهِ أَنَا " .


Narrated 'Aisha: Whenever Allah's Apostle ordered the Muslims to do something, he used to order them deeds which were easy for them to do, (according to their strength and endurance). They said, "O Allah's Apostle! We are not like you. Allah has forgiven your past and future sins." So Allah's Apostle became angry and it was apparent on his face. He said, "I am the most Allah fearing, and know Allah better than all of you do."


´یہ حدیث ہم سے محمد بن سلام نے بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس کی عبدہ نے خبر دی، وہ ہشام سے نقل کرتے ہیں، ہشام عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ فرماتی ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی (اس پر) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں (آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ (اس لیے ہمیں اپنے سے کچھ زیادہ عبادت کرنے کا حکم فرمائیے) (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے حتیٰ کہ خفگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہونے لگی۔ پھر فرمایا کہ بیشک میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اسے جانتا ہوں۔ (پس تم مجھ سے بڑھ کر عبادت نہیں کر سکتے)۔

Question

Why is the Prophet SAW getting angry from the question people asked him? And why is he replying in a way he replied in the hadith? What does one learn from this hadith?

Answer

He became angry because of what they were inadvertently implying: that there was good that the Prophet (SAW) refrained from doing because his sins were forgiven and he was guaranteed Jannah.

As the Prophet (SAW) said, this was not the case. Not making things difficult for yourself and for others beyond their capabilities is part of the religion. Making it harder for yourself than you can bear has no benefit. If it did, the Prophet himself would have done it first even if his sins were forgiven.

Hadith No -19- Kitaab-ul-Eeman  (کتاب الاایمان) Bukhaari Shareef (Ahaadees Mubaarkah)

 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ ، يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ " .

Narrated Abu Said Al-Khudri: Allah's Apostle said, "A time will come that the best property of a Muslim will be sheep which he will take on the top of mountains and the places of rainfall (valleys) so as to flee with his religion from afflictions."

QUICK LESSONS:

Be prepared for any situation and strive to protect your faith no matter what happens in life.

EXPLANATIONS:

This hadith speaks about a time that may come in the future where Muslims may have to flee with their religion from afflictions. The Prophet Muhammad ﷺ advised that the best property for a Muslim during this time would be sheep, as they can be taken up on mountains and places of rainfall. This hadith teaches us that we should always be prepared for any situation and not take our faith for granted. We should also strive to protect our faith no matter what happens in life.

Detail

In this case, it is obligatory on him to try to end the fitna. Doing so will either be obligatory on him, or depending on the circumstances and possibilities, the obligation will be sufficient. However, the scholars disagree about the days other than the Fitna, which is the best way for a person to live in seclusion and mingle with people?

The more popular view is that a man should mix with people if he has a strong belief that he will not be involved in sins. "Yafar Badinah Min Al-Fattan" means he will flee under the fear that he may not fall victim to temptations in the matter of religion. It is for this reason that man has been ordered to migrate from the areas where polytheism is common and come to the areas where Islam is dominant and similarly, leaving the areas where immorality is prevalent, leave these areas. May I come to a place where steadfastness prevails. The same should be done with the change of people and time.

´ہم سے (اس حدیث کو) عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے اسے مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا، انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ابی صعصعہ سے، انہوں نے اپنے باپ (عبداللہ رحمہ اللہ) سے، وہ ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا (سب سے) عمدہ مال (اس کی بکریاں ہوں گی)۔ جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا۔

اس حدیث میں فتنوں کے دور میں عزلت نشینی کی فضیلت کا بیان ہے ماسوا اس کے کہ اس بندے میں فتنے کو دور کرنے کی طاقت ہو۔اس صورت میں اس پر واجب ہے کہ وہ فتنے کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ ایسا کرنا اس پر یا تو فرض عین ہو گا یا پھرحالات و امکانات کے لحاظ سے فرض کفایہ ہوگا۔ تاہم فتنے کے علاوہ دیگر دنوں کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ ان میں انسان کے لیے عزلت نشینی اور لوگوں سے گھل مل کر رہنے میں سی کون سی صورت افضل ہے؟ زیادہ پسندیدہ قول یہی ہے کہ انسان لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہے اگر اسے غالب گمان ہو کہ وہ گناہوں میں مبتلا نہیں ہو گا۔ "يفر بدينه من الفتن" یعنی اس اندیشے کے تحت بھاگ جائے گا کہ کہیں دین کے معاملے میں وہ فتنوں کا شکار نہ ہو جائے۔ اسی وجہ سے انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ جن علاقوں میں شرک عام ہو وہ وہاں سے ہجرت کر کے ان علاقوں میں آ جائے جہاں اسلام کا غلبہ ہو اور اسی طرح جن علاقوں میں فسق و فجور کا دور دورہ ہو انہیں چھوڑ کر ان علاقوں میں آ جائے جہاں (اسلام پر) استقامت کا غلبہ ہو۔ لوگوں اور وقت کے تغیر کے ساتھ ایسے ہی کرنا چاہیے۔


Hadith No -18- Kitaab-ul-Eeman  (کتاب الاایمان) Bukhaari Shareef (Ahaadees Mubaarkah)

 

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ عَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ : " بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا ، وَلَا تَسْرِقُوا ،s وَلَا تَزْنُوا ، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ ، وَلَا تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ " ، فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِك .


Narrated 'Ubada bin As-Samit: who took part in the battle of Badr and was a Naqib (a person heading a group of six persons), on the night of Al-'Aqaba pledge: Allah's Apostle said while a group of his companions were around him, "Swear allegiance to me for: 1. Not to join anything in worship along with Allah. 2. Not to steal. 3. Not to commit illegal sexual intercourse. 4. Not to kill your children. 5. Not to accuse an innocent person (to spread such an accusation among people). 6. Not to be disobedient (when ordered) to do good deed." The Prophet added: "Whoever among you fulfills his pledge will be rewarded by Allah. And whoever indulges in any one of them (except the ascription of partners to Allah) and gets the punishment in this world, that punishment will be an expiation for that sin. And if one indulges in any of them, and Allah conceals his sin, it is up to Him to forgive or punish him (in the Hereafter)." 'Ubada bin As-Samit added: "So we swore allegiance for these." (points to Allah's Apostle)


´ہم سے اس حدیث کو ابوالیمان نے بیان کیا، ان کو شعیب نے خبر دی، وہ زہری سے نقل کرتے ہیں، انہیں ابوادریس عائذ اللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃالعقبہ کے (بارہ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں (اللہ کی) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں (اسلامی قانون کے تحت) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے (گناہوں کے) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے (گناہ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا (معاملہ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دیدے۔ (عبادہ کہتے ہیں کہ) پھر ہم سب نے ان (سب باتوں) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی۔

تشریح : اس حدیث کے راوی عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت خزرجی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے مکہ آکر مقام عقبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور اہل مدینہ کی تعلیم وتربیت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بارہ آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیاتھا، یہ ان میں سے ایک ہیں جنگ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں۔34ہجری میں 72سال کی عمرپاکر انتقال کیا اور رملہ میں دفن ہوئے۔ صحیح بخاری میں ان سے نواحادیث مروی ہیں۔ انصار کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مدینہ کے لوگوں نے جب اسلام کی اعانت کے لیے مکہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تواسی بنا پر ان کا نام انصار ہوا۔ انصار ناصر کی جمع ہے اور ناصر مددگار کوکہتے ہیں۔ انصار عہدجاہلیت میں بنوقیلہ کے نام سے موسوم تھے۔ قیلہ اس ماں کو کہتے ہیں جو دوقبائل کی جامعہ ہو۔ جن سے اوس اور خزرج ہردوقبائل مراد ہیں۔ ان ہی کے مجموعہ کو انصار کہاگیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کے تحت جب ایک مجرم کو اس کے جرم کی سزا مل جائے تو آخرت میں اس کے لیے یہ سزا کفارہ بن جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ ہرگناہ کی سزادے۔ اسی طرح اللہ پر کسی نیکی کا ثواب دینا بھی ضروری نہیں۔ اگروہ گنہ گار کو سزا دے تو یہ اس کا عین انصاف ہے اور گناہ معاف کردے تو یہ اس کی عین رحمت ہے۔ نیکی پر اگر ثواب نہ دے تو یہ اس کی شان بے نیازی ہے اور ثواب عطا فرمادے تو یہ اس کا عین کرم ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ گناہ کبیرہ کامرتکب بغیرتوبہ کئے مرجائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، چاہے تواس کے ایمان کی برکت سے بغیر سزادئیے جنت میں داخل کرے اور چاہے سزا دے کر پھر جنت میں داخل کرے۔ مگر شرک اس سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کے بارے میں قانون الٰہی یہ ہے ان اللہ لایغفران یشرک بہ الایۃ جو شخص شرک پر انتقال کرجائے تو اللہ پاک اسے ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ کسی مومن کا خون ناحق بھی نص قرآن سے یہی حکم رکھتا ہے۔ اور حقوق العباد کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ جب تک وہ بندے ہی نہ معاف کردیں، معافی نہیں ملے گی۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی عام آدمی کے بارے میں قطعی جنتی یاقطعی دوزخی کہنا جائز نہیں۔ پانچویں بات معلوم ہوئی کہ اگرایمان دل میں ہے تومحض گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوتا۔ مگرایمان قلبی کے لیے زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے ثبوت ایمان دینا بھی ضروری ہے۔ اس حدیث میں ایمان، اخلاق، حقوق العباد کے وہ بیشتر مسائل آگئے ہیں۔ جن کو دین وایمان کی بنیاد کہاجا سکتا ہے۔ اس سے صاف واضح ہوگیا کہ نیکی وبدی یقینا ایمان کی کمی وبیشی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور جملہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں۔ ان احادیث کی روایت سے حضرت امیرالمحدثین کا یہی مقصد ہے۔ پس جو لوگ ایمان میں کمی وبیشی کے قائل نہیں وہ یقینا خطا پر ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر یاہمیشہ کے لیے دوزخی بتلاتے ہیں۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہماری روایت کے مطابق یہاں لفظ باب بغیرترجمہ کے ہے اور یہ ترجمہ سابق ہی سے متعلق ہے۔ ووجہ التعلق انہ لما ذکرالانصار فی الحدیث الاول اشارفی ہذا الی ابتداءالسبب فی تلقیہم بالانصار لان اول ذلک کان لیلۃ العقبۃ لما توافقوا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم عندعقبۃ منی فی الموسم کماسیاتی شرح ذلک ان شاءاللہ تعالیٰ فی السیرۃ النبویۃ من ہذا الکتاب یعنی اس تعلق کی وجہ یہ ہے کہ حدیث اول میں انصار کا ذکر کیاگیا تھا یہاں یہ بتلایاگیا کہ یہ لقب ان کو کیونکر ملا۔ اس کی ابتداءاس وقت سے ہوئی جب کہ ان لوگوں نے عقبہ میں منیٰ کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت وامداد کے لیے پورے طور پر وعدہ کیا۔ لفظ “ عصابہ ” کا اطلاق زیادہ سے زیادہ چالیس پر ہو سکتا ہے۔ یہ بیعت اسلام تھی جس میں آپ نے شرک باللہ سے توبہ کرنے کا عہدلیا۔ پھر دیگر اخلاقی برائیوں سے بچنے کا اور اولاد کوقتل نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ جب کہ عرب میں یہ برائیاں عام تھیں۔ بہتان سے بچنے کا بھی وعدہ لیا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جس کی کوئی اصلیت نہ ہو۔ الفاظ بین ایدیکم وارجلکم میں دل سے کنایہ ہے۔ یعنی دل نے ایک بے حقیقت بات گھڑلی۔ آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی بات پر عہد لیاکہ ہرنیک کام میں ہمیشہ اطاعت کرنی ہوگی۔ معروف ہروہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں جانی ہوئی ہو۔ اس کی ضد منکرہے۔ جوشریعت میں نگاہ نفرت سے دیکھی جائے۔ اس حدیث کے راوی عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت خزرجی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے مکہ آکر مقام عقبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور اہل مدینہ کی تعلیم وتربیت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بارہ آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیاتھا، یہ ان میں سے ایک ہیں جنگ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں۔34ہجری میں 72سال کی عمرپاکر انتقال کیا اور رملہ میں دفن ہوئے۔ صحیح بخاری میں ان سے نواحادیث مروی ہیں۔ انصار کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مدینہ کے لوگوں نے جب اسلام کی اعانت کے لیے مکہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تواسی بنا پر ان کا نام انصار ہوا۔ انصار ناصر کی جمع ہے اور ناصر مددگار کوکہتے ہیں۔ انصار عہدجاہلیت میں بنوقیلہ کے نام سے موسوم تھے۔ قیلہ اس ماں کو کہتے ہیں جو دوقبائل کی جامعہ ہو۔ جن سے اوس اور خزرج ہردوقبائل مراد ہیں۔ ان ہی کے مجموعہ کو انصار کہاگیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کے تحت جب ایک مجرم کو اس کے جرم کی سزا مل جائے تو آخرت میں اس کے لیے یہ سزا کفارہ بن جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ ہرگناہ کی سزادے۔ اسی طرح اللہ پر کسی نیکی کا ثواب دینا بھی ضروری نہیں۔ اگروہ گنہ گار کو سزا دے تو یہ اس کا عین انصاف ہے اور گناہ معاف کردے تو یہ اس کی عین رحمت ہے۔ نیکی پر اگر ثواب نہ دے تو یہ اس کی شان بے نیازی ہے اور ثواب عطا فرمادے تو یہ اس کا عین کرم ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ گناہ کبیرہ کامرتکب بغیرتوبہ کئے مرجائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، چاہے تواس کے ایمان کی برکت سے بغیر سزادئیے جنت میں داخل کرے اور چاہے سزا دے کر پھر جنت میں داخل کرے۔ مگر شرک اس سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کے بارے میں قانون الٰہی یہ ہے ان اللہ لایغفران یشرک بہ الایۃ جو شخص شرک پر انتقال کرجائے تو اللہ پاک اسے ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ کسی مومن کا خون ناحق بھی نص قرآن سے یہی حکم رکھتا ہے۔ اور حقوق العباد کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ جب تک وہ بندے ہی نہ معاف کردیں، معافی نہیں ملے گی۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی عام آدمی کے بارے میں قطعی جنتی یاقطعی دوزخی کہنا جائز نہیں۔ پانچویں بات معلوم ہوئی کہ اگرایمان دل میں ہے تومحض گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوتا۔ مگرایمان قلبی کے لیے زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے ثبوت ایمان دینا بھی ضروری ہے۔ اس حدیث میں ایمان، اخلاق، حقوق العباد کے وہ بیشتر مسائل آگئے ہیں۔ جن کو دین وایمان کی بنیاد کہاجا سکتا ہے۔ اس سے صاف واضح ہوگیا کہ نیکی وبدی یقینا ایمان کی کمی وبیشی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور جملہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں۔ ان احادیث کی روایت سے حضرت امیرالمحدثین کا یہی مقصد ہے۔ پس جو لوگ ایمان میں کمی وبیشی کے قائل نہیں وہ یقینا خطا پر ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر یاہمیشہ کے لیے دوزخی بتلاتے ہیں۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہماری روایت کے مطابق یہاں لفظ باب بغیرترجمہ کے ہے اور یہ ترجمہ سابق ہی سے متعلق ہے۔ ووجہ التعلق انہ لما ذکرالانصار فی الحدیث الاول اشارفی ہذا الی ابتداءالسبب فی تلقیہم بالانصار لان اول ذلک کان لیلۃ العقبۃ لما توافقوا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم عندعقبۃ منی فی الموسم کماسیاتی شرح ذلک ان شاءاللہ تعالیٰ فی السیرۃ النبویۃ من ہذا الکتاب یعنی اس تعلق کی وجہ یہ ہے کہ حدیث اول میں انصار کا ذکر کیاگیا تھا یہاں یہ بتلایاگیا کہ یہ لقب ان کو کیونکر ملا۔ اس کی ابتداءاس وقت سے ہوئی جب کہ ان لوگوں نے عقبہ میں منیٰ کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت وامداد کے لیے پورے طور پر وعدہ کیا۔ لفظ “ عصابہ ” کا اطلاق زیادہ سے زیادہ چالیس پر ہو سکتا ہے۔ یہ بیعت اسلام تھی جس میں آپ نے شرک باللہ سے توبہ کرنے کا عہدلیا۔ پھر دیگر اخلاقی برائیوں سے بچنے کا اور اولاد کوقتل نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ جب کہ عرب میں یہ برائیاں عام تھیں۔ بہتان سے بچنے کا بھی وعدہ لیا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جس کی کوئی اصلیت نہ ہو۔ الفاظ بین ایدیکم وارجلکم میں دل سے کنایہ ہے۔ یعنی دل نے ایک بے حقیقت بات گھڑلی۔ آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی بات پر عہد لیاکہ ہرنیک کام میں ہمیشہ اطاعت کرنی ہوگی۔ معروف ہروہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں جانی ہوئی ہو۔ اس کی ضد منکرہے۔ جوشریعت میں نگاہ نفرت سے دیکھی جائے۔

Hadith No -17- Kitaab-ul-Eeman  (کتاب الاایمان) Bukhaari Shareef (Ahaadees Mubaarkah)

 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ " .

Narrated Anas: The Prophet said, "Love for the Ansar is a sign of faith and hatred for the Ansar is a sign of hypocrisy."

Who is Ansar?

The Ansar or Ansari (Arabic: الأنصار, romanized: al-Anṣār, lit. 'The Helpers’ or ‘Those who bring victory') are the local inhabitants of Medina who, in Islamic tradition, took the Islamic prophet Muhammad and his followers (the Muhajirun) into their homes when they emigrated from Mecca during the hijra. They also took Islam as their religion.[citation needed]


They belonged to the tribes of Banu Khazraj and Banu Aus.

´ہم سے اس حدیث کو ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، انہیں عبداللہ بن عبداللہ بن جبر نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کو سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے انصار سے محبت کرنے پر ابھارا، اور انصار کی خوبیوں کے پیشِ نظر اسے (انصار سے محبت کو) ایمان کی علامت قرار دیا اس لیے کہ انھوں نے آپ کی خدمت میں سبقت کی تھی اور اسی طرح دینِ اسلام کی خدمت اور اس کے غلبے اور مسلمانوں کو پناہ دینے والی صفات جو ان میں تھیں، اسلام کے اہم معاملات کو کماحقہ قائم کرنے اور آپ ﷺ سے ان کی محبت اور ان سے آپ ﷺ کی محبت، آپ ﷺ کے لیے ان کا اپنا مال اور جان کا نذرانہ پیش کرنا اور اسلام کی خاطر قربانی دیتے ہوئے ان کا جہاد کرنا اور اسلام کی خاطر دوسرے لوگوں سے دشمنیاں مول لینے کی وجہ سے ان سے محبت کرنے کو کہا گیا ہے۔ بلکہ آپ ﷺ نے صراحت فرمائی کہ ان سے بُغض اسی شخص سے تصور کیا جاسکتا ہے جو اللہ، آخرت کے دن پر ایمان نہ رکھتا ہو اور نفاق میں ڈوبا ہوا ہو۔

شرح...: انصار سے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے والے مراد ہیں اور وہ اوس و خزرج والے تھے۔
اس سے پہلے انہیں بنو قیلہ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ قیلہ دونوں قبیلوں کی وہ ماں تھی جہاں جاکر ان دونوں کی نسل جمع ہوجاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام انصار رکھا اور یہی ان کی علامت اور نشانی بن گیا یہ نام ان کی اولاد، ان کے حلیف اور ان کے غلاموں پر بھی بولا جاتا ہے۔
وہ اس بلند و بالا منقبت اور فضیلت کے اس لیے مستحق ٹھہرے کہ دوسرے قبائل کی بجائے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو جگہ دی، ان کے امور کے لیے کھڑے ہوئے، اپنا مال اور جان ان پر نچھاور کردی اور بہت سے معاملات میں انہیں اپنے آپ پر ترجیح دی۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی مدح کی ہے۔ فرمایا:
{وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوْتُوا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَّمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَأُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o} [الحشر: ۹]
'' (اور مال فے ان) لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ میں) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے، اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تشویش نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو۔ اور جو کوئی اپنے نفس کی بخیلی سے بچالیا گیا پس ایسے لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔''
یعنی یہ انصار، مہاجرین سے پیار کرتے ہیں اور جو ان کو ملا اس پر حسد نہیں کیا بلکہ اپنی ضرورت کے باوجود انہیں اپنے آپ پر ترجیح دی اور اپنے مال اور گھر ان کے سامنے رکھ دیے۔ اسی لیے انصار کے ساتھ محبت کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے حتیٰ کہ اسے ایمان کی نشانی قرار دیا گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( آیَۃُ الْاِیْمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ۔ ))1
'' ایمان کی نشانی انصار کی محبت ہے۔ ''
حدیث میں ان کی فضیلت کو اجاگر اور ان کے فعل کی عمدگی پر متنبہ کیا گیا ہے۔ گو مذکورہ فضیلت میں دیگر صحابہ بھی شریک ہیں مگر ہر ایک اپنے درجہ اور رتبہ کے مطابق ہے مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث مروی ہے، کہتے ہیں: '' اس ذات کی قسم! جس نے دانے اور روح کو پیدا کیا، بے شک امی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف عہد کیا کہ مجھ سے محبت صرف مومن ہی کرتا ہے اور مجھ سے بغض صرف منافق ہی رکھتا ہے۔ '' 2
یہ بات تمام صحابہ کے بارے میں جاری ہے، کیونکہ عزت و شرف میں سب مشترک ہیں۔ جس آدمی نے انصار کا مرتبہ اور ان کا دین اسلام کی نصرت کرنا، اسلام کے لیے ایثار کرنا، سب لوگوں سے دشمنی اور جنگ مول لینا، نبی علیہ السلام سے پیار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے محبت کرنا، جس نے بھی ان امور کو جان لیا اور پھر ان امور کی وجہ سے خود بھی ان سے محبت شروع کردی تو یہ ایسے انسان کے ایمان کے صحیح اور اسلام میں سچے ہونے کی علامت ہے کیونکہ ایسا شخص اسلام کے غلبہ کو پسند کرتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں کو بجا لانے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔

مدینہ منورہ کے وہ مسلمان جنھوں نے ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ اور مکہ سے آنے والے مسلمان مہاجرین کی مدد کی۔ انصار و مہاجرین کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور لوگوں کو ان کے اتباع کی تلقین کی گئی ہے۔ انصار جمع ہے ناصر و نصیر کی۔ مددگار۔ قرآن مجید میں جہاں مہاجرین و انصار کا ذکر آیا ہے وہاں انصار سے مراد انصار مدینہ ہیں جو نبی کریم ﷺ کی نصرت کے بدولت اس لقب سے سرفراز کیے گئے۔ مدنی زندگی میں اگرچہ مسلمانوں کی یہ دو تقسیمیں تھیں۔ مگر رسول اللہ نے ابتدا ہی سے ان میں بھائی چارہ کرا دیا تھا۔ غزوہ بدر سے پہلے جب حضور نے صحابہ کرام کو مشورے کے لے جمع کیا تو مہاجرین نے جان نثارانہ تقریریں کیں۔ اس کے بعد حضور نے انصار کی طرف دیکھا۔ کیونکہ ان سے معاہدہ تھا کہ وہ صرف اس وقت تلواریں اٹھائیں گے جب دشمن مدینہ پر چڑھ آئیں گے۔ سعد بن عبادہ سردار بنو خزرج نے کہا کہ آپ فرمائیں تو ہم سمندر میں کود پڑیں۔ مقداد نے کہا کہ ہم حضرت موسی کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے آپ اور آپ کاخدا لڑیں۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم تو آپ کے داہنے سے، بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے۔ انصار کا تعلق ازد کے دو اہم قبائل بنو خزرج اور بنو اوس سے تھا۔