Friday, 15 March 2024

1-خلاصۃ سورة الفاتحہ

 سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل مکی سورت ہے۔ مفسرین کرام نے اس کے بہت سے نام شمار کرائے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں سورہ فاتحہ کے بائیس نام شمار کرائے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے کثرت الاسماءتدل علی عظمة المسمی کسی چیز کے زیادہ نام اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ سورہ فاتحہ کے بہت سارے نام بھی اس مبارک سورت کی عظمتوں کے غماز ہیں۔اہمیت کے پیش نظر اس سورت کے چند نام ہم ذکر کرتے ہیں۔ اس کا مشہور نام سورة الفاتحہ ہے کیونکہ مصحف عثمانی کی ابتداءاس سورت سے ہوئی ہے۔ نیز نماز کی ابتداءبھی اسی سورت سے ہوتی ہے۔ اس کا نام ام الکتاب بھی ہے جس کا مطلب ہے قرآن کریم کی اساس اور بنیاد۔ قرآن کریم میں بیان کئے جانے والے مضامین و مقاصد کا خلاصہ اس چھوٹی سی سورت میں ذکر کرکے دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ توحید و رسالت، آخرت، احکام شریعت اور قرآنی نظام کے وفاداروں کا قابل رشک انجام.... اور اس کے باغیوں کا عبرتناک انجام یہ وہ پانچ مضامین ہیں جنہیں پورے شرح و بسط کے ساتھ قرآن کریم کی باقی ۳۱۱ سورتوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضامین معجزانہ انداز میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس سورت میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ اسی لئے اس سورت کو ام الکتاب اور اساس القرآن کہا گیا ہے۔ مفسرین کرام نے سورت الفاتحہ کو قرآن کریم کا مقدمہ یا پیش لفظ بھی کہا ہے۔ اس کے مضامین کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہر نماز میں اس کی تلاوت کا حکم دیا تاکہ شب و روز میں کم از کم پانچ مرتبہ پورے قرآن کا خلاصہ ہر مسلمان کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے۔ اس سورت کا ایک نام تعلیم المسئلة ہے کہ اس میں مانگنے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہئے اور کس طرح مانگنا چاہئے۔ یہ سورت الشفاءبھی ہے کہ روحانی و جسمانی امراض کے لئے پیغام شفاءہے۔ سات مرتبہ پڑھ کر دم کرنے سے موت کے علاوہ ہر جسمانی مرض سے صحت حاصل ہوتی ہے اور اس کے مضامین پر عمل کرنے سے روحانی امراض سے شفایابی ہوتی ہے۔

سورہ فاتحہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے تمام کمالات اور خوبیوں کے اعتراف کے لئے حمد کا عنوان اختیار کیا گیا ہے اور تمام کائنات کی ربوبیت کو تسلیم کرنے کے لئے رب العالمین کی صفت کا بیان ہے، کیونکہ رب وہ ہوتا ہے جو کسی چیز کو عدم سے وجود میں لائے اور اس کی زندگی کے ہر مرحلہ میں اس کی تمام ضروریات پوری کرنے اور اس کی تربیت کے تمام وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کائنات کا وجود و عدم اس کی صنعت رحمت کا مرہونِ منت ہے۔ قیامت کے دن انسانی اعمال کی جزاءو سزا کا حتمی فیصلہ کرنے والا مالک و مختار وہی ہے۔ ہر قسم کی وفاداریوں کا مرکز اور مالی و جسمانی عبادات کا مستحق وہی ہے۔ ہر مشکل مرحلہ میں اسی سے مدد طلب کی جانی چاہئے۔ ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی منشاءو مرضی کے مطابق سرانجام دینے کا سلیقہ ہدایت کہلاتا ہے۔ اس لئے بندہ صراط مستقیم کی ہدایت انبیاءو صدیقین و شہداءو صالحین جو اپنے خالق سے وفاداریوں کی بناءپر انعامات کے مستحق قرار پا چکے ہیں ان کے راستہ کی ہدایت، اپنے مالک سے طلب کرتا ہے اور قرآنی نظام کے باغی یہود و نصاریٰ اور ان کے اتحادیوں کے راستہ سے بچنے کی درخواست پیش کرتا ہے اور آخر میں آمین کہہ کر اس عاجزانہ درخواست کی قبولیت کے لئے نیاز مندانہ معروض پیش کرتا ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ بندہ جب سورہ فاتحہ ختم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ”میرے بندے نے مجھ سے جو مانگا، میں نے اسے عطاءکردیا۔“ دوسری حدیث میں ہے کہ ”امام جب نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت ختم کرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ تم بھی آمین کہا کرو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔“

ایک حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”میں نے سورہ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم کرلیا ہے۔ آدھی سورہ فاتحہ میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے۔ جب بندہ الحمدﷲ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حمدنی عبدی میرے بندے نے میری حمد بیان کی جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اثنی علی عبدی میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری عظمت و بزرگی کا اعتراف کیا۔ جب ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا بینی و بین عبدی یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے۔ جب بندہ اہدنا الصراط المستقیم سے آخر تک کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا العبدی والعبدی ماسال یہ میرے بندہ کے لئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ہے میں نے اسے عطاءکردیا ہے۔

Sunday, 27 August 2023

Hadith No -20- Kitaab-ul-Eeman  (کتاب الاایمان) Bukhaari Shareef (Ahaadees Mubaarkah)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ ، أَمَرَهُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ ، قَالُوا : إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ، فَيَغْضَبُ حَتَّى يُعْرَفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ ، ثُمَّ يَقُولُ : إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللَّهِ أَنَا " .


Narrated 'Aisha: Whenever Allah's Apostle ordered the Muslims to do something, he used to order them deeds which were easy for them to do, (according to their strength and endurance). They said, "O Allah's Apostle! We are not like you. Allah has forgiven your past and future sins." So Allah's Apostle became angry and it was apparent on his face. He said, "I am the most Allah fearing, and know Allah better than all of you do."


´یہ حدیث ہم سے محمد بن سلام نے بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس کی عبدہ نے خبر دی، وہ ہشام سے نقل کرتے ہیں، ہشام عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ فرماتی ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی (اس پر) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں (آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ (اس لیے ہمیں اپنے سے کچھ زیادہ عبادت کرنے کا حکم فرمائیے) (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے حتیٰ کہ خفگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہونے لگی۔ پھر فرمایا کہ بیشک میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اسے جانتا ہوں۔ (پس تم مجھ سے بڑھ کر عبادت نہیں کر سکتے)۔

Question

Why is the Prophet SAW getting angry from the question people asked him? And why is he replying in a way he replied in the hadith? What does one learn from this hadith?

Answer

He became angry because of what they were inadvertently implying: that there was good that the Prophet (SAW) refrained from doing because his sins were forgiven and he was guaranteed Jannah.

As the Prophet (SAW) said, this was not the case. Not making things difficult for yourself and for others beyond their capabilities is part of the religion. Making it harder for yourself than you can bear has no benefit. If it did, the Prophet himself would have done it first even if his sins were forgiven.

Hadith No -19- Kitaab-ul-Eeman  (کتاب الاایمان) Bukhaari Shareef (Ahaadees Mubaarkah)

 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ ، يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ " .

Narrated Abu Said Al-Khudri: Allah's Apostle said, "A time will come that the best property of a Muslim will be sheep which he will take on the top of mountains and the places of rainfall (valleys) so as to flee with his religion from afflictions."

QUICK LESSONS:

Be prepared for any situation and strive to protect your faith no matter what happens in life.

EXPLANATIONS:

This hadith speaks about a time that may come in the future where Muslims may have to flee with their religion from afflictions. The Prophet Muhammad ﷺ advised that the best property for a Muslim during this time would be sheep, as they can be taken up on mountains and places of rainfall. This hadith teaches us that we should always be prepared for any situation and not take our faith for granted. We should also strive to protect our faith no matter what happens in life.

Detail

In this case, it is obligatory on him to try to end the fitna. Doing so will either be obligatory on him, or depending on the circumstances and possibilities, the obligation will be sufficient. However, the scholars disagree about the days other than the Fitna, which is the best way for a person to live in seclusion and mingle with people?

The more popular view is that a man should mix with people if he has a strong belief that he will not be involved in sins. "Yafar Badinah Min Al-Fattan" means he will flee under the fear that he may not fall victim to temptations in the matter of religion. It is for this reason that man has been ordered to migrate from the areas where polytheism is common and come to the areas where Islam is dominant and similarly, leaving the areas where immorality is prevalent, leave these areas. May I come to a place where steadfastness prevails. The same should be done with the change of people and time.

´ہم سے (اس حدیث کو) عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے اسے مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا، انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ابی صعصعہ سے، انہوں نے اپنے باپ (عبداللہ رحمہ اللہ) سے، وہ ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا (سب سے) عمدہ مال (اس کی بکریاں ہوں گی)۔ جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا۔

اس حدیث میں فتنوں کے دور میں عزلت نشینی کی فضیلت کا بیان ہے ماسوا اس کے کہ اس بندے میں فتنے کو دور کرنے کی طاقت ہو۔اس صورت میں اس پر واجب ہے کہ وہ فتنے کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ ایسا کرنا اس پر یا تو فرض عین ہو گا یا پھرحالات و امکانات کے لحاظ سے فرض کفایہ ہوگا۔ تاہم فتنے کے علاوہ دیگر دنوں کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ ان میں انسان کے لیے عزلت نشینی اور لوگوں سے گھل مل کر رہنے میں سی کون سی صورت افضل ہے؟ زیادہ پسندیدہ قول یہی ہے کہ انسان لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہے اگر اسے غالب گمان ہو کہ وہ گناہوں میں مبتلا نہیں ہو گا۔ "يفر بدينه من الفتن" یعنی اس اندیشے کے تحت بھاگ جائے گا کہ کہیں دین کے معاملے میں وہ فتنوں کا شکار نہ ہو جائے۔ اسی وجہ سے انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ جن علاقوں میں شرک عام ہو وہ وہاں سے ہجرت کر کے ان علاقوں میں آ جائے جہاں اسلام کا غلبہ ہو اور اسی طرح جن علاقوں میں فسق و فجور کا دور دورہ ہو انہیں چھوڑ کر ان علاقوں میں آ جائے جہاں (اسلام پر) استقامت کا غلبہ ہو۔ لوگوں اور وقت کے تغیر کے ساتھ ایسے ہی کرنا چاہیے۔