Sunday, 13 October 2024

حَیلولہ، قَیلولہ اور عَیلولہ کیا ہیں؟

 *حَیلولہ، قَیلولہ اور عَیلولہ کیا ہیں؟*


 *یہ معلومات مدارس و یونیورسٹیز کے طلباء،بزنس مین اور افسران بالا کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہیں*


 *1:  حیلولہ کا معنی ہے:* نماز فجر کے بعد یا (نماز فجر کے وقت کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے) سوئے رہنا۔اس سونے کو عربی میں "حیلولہ" اس لیے کہتے ہیں کہ یہ آپ اور آپ کے رزق کے درمیان رکاوٹ بنتا ہے۔یہ وقت اللہ کی طرف سے رزق کی برسات اور تقسیم کا ہوتا ہے۔ترمذی شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے صبح کے اوقات میں برکت کی دعا ان الفاظ کے ساتھ فرمائی ہے: اللھم بارک لامتی فی بکورھاحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس وقت محو استراحت تھیں،سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:یَا بُنِیَّةَ! قُوۡمِیۡ،اِشۡهَدِیۡ رِزۡقَ رَبِّكِ وَلاَتَكُوۡنِیۡ مِنَ الۡغَافِلِیۡنَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ یُقَسِّمُ أَرۡزَاقَ النَّاسِ مَا بَیۡنَ طُلُوۡعِ الۡفَجۡرِ اِلیٰ طُلُوِۡعِ الشَّمۡسِ

 دخترعزیزم! اٹھ جائیے،اپنے رب کا رزق حاصل کیجیے!غافل لوگوں میں سے نہ بنیے! اللہ کریم طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک بندوں کا رزق تقسیم فرماتے ہیں۔


 *2:  قیلولہ* نماز ظہر کے بعد یا اسے پہلے آدھے گھنٹے (یا کم و بیش) کے لیے آرام کرنا کہلاتا ہے۔یہ عبادت بھی ہے،خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت بھی ہے اور صحت بھی ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ شعب الایمان میں روایت لائے ہیں کہ دن کو سونے کے ذریعے رات کو عبادت کی طاقت حاصل کیجیے! شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسم نور اللہ مرقدہ فرماتے تھے کہ" عام دنوں میں نماز ظہر سے پہلے کھانا اور قیلولہ ہونا چاہیے۔جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد کھانا اور آرام ہونا چاہیے۔فرماتے تھے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ قول امام بخاری نے نقل کیاہے: مَا كُنَّا نَقِیۡلُ وَ نَتَغَدّٰی اِلاَّ بَعۡدَ الۡجُمُعَةِ نماز جمعہ کے ہم بعد سوتے تھے اور کھانا کھاتے تھے۔شیخ مکرم رحمہ اللہ کا ہمیشہ یہی معمول مجھے دیکھنے کو ملا ہے۔کبھی مہمانوں کی آمد یا کوئی اور سبب بن گیا تو الگ بات ہے۔


*3:  عیلولہ* کا مفہوم "عصر کی نماز کے بعد آرام کے لیے لیٹنا" کا ہے یہ جسم و سانس کی بیماری اور سینہ کی تنگی کا سبب بنتا ہے۔اس وقت سیر و تفریح اور ہلکے پھلکے کام کیے جائیں ذکر و فکر اور دعا بھی کرنی چاہیے۔شیخ مکرم اس کی اہمیت پہ زور دیتے ہوئے فرماتے تھے کہ حدیث کے مطابق " یہ دونوں قسم کے فرشتوں کے اجتماع کا وقت ہوتا ہے۔رات والے فرشتے آتے اور دن والے روانہ ہوجاتے ہیں۔ (بخاری و  مسلم) ان فرشتوں نے اللہ میاں کو رپورٹ دینی ہوتی ہے کہ ہم تیرے بندوں کو آپ کی عبادت میں مشغول چھوڑ کے آئے ہیں۔ہمیں اپنا نظام الاوقات ترتیب دینا چاہیے!جس میں کھانے پینے،سونے جاگنے،ملنے ملانے اور سوشل میڈیا استعمال کرنے سمیت تمام معاملات ایک نظم اور ترتیب کے ساتھ کرنے چاہیں۔بے وقت سوئیے نہیں! رات کی نیند پوریں کریں۔موبائل کو اپنا سب کچھ نہ سمجھیں۔یہ ایک ضرورت ہے،اسے ضرورت کی حد تک رکھیں۔رات عشاء کی نماز سے پہلے نہ سوئیے اور رات عشاء کے بعد زیادہ تک فضول گوئی میں نیند کا وقت ضائع نہیں کیجیے! 

عربی کا مقولہ ہے: طاب نومکم طاب یومک۔تمہاری نیند اچھی،تمہارا دن اچھا۔

Tuesday, 16 April 2024

Hadith No -21- Kitaab-ul-Eeman  (کتاب الاایمان) Bukhaari Shareef (Ahaadees Mubaarkah)

 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ ، مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا ، وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ ، وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ " .


´اس حدیث کو ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں، وہ انس رضی اللہ عنہ سے، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا، ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور تیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے۔


Narrated Anas: The Prophet said, "Whoever possesses the following three qualities will taste the sweetness of faith: 1. The one to whom Allah and His Apostle become dearer than anything else. 2. Who loves a person and he loves him only for Allah's sake. 3. Who hates to revert to disbelief (Atheism) after Allah has brought (saved) him out from it, as he hates to be thrown in fire."


Details:

Narrated Abu Huraira:


“Allah’s Apostle said, “By Him in Whose Hands my life is, none of you will have faith till he loves me more than his father and his children.”



On the Day of Judgment

The Prophet (SA) told us about seven kinds of people who will be under the protection of the Shade of Allah’s Throne on the Day of Judgment. And one of these is “two persons who love and meet each other and depart from each other for the sake of Allah” [Al-Bukhari and Muslim, qt in Riyad al-Salihin Book 1, Hadith 659)


Also:


“Allah, the Mighty and Sublime, said: ‘Those who love each other for the sake of My Majesty shall be upon podiums of light, and they will be admired by the Prophets and the martyrs.'” (Tirmidhi 2390)


Allah’s Messenger also said:


“Verily. Allah would say on the Day of Resurrection: Where are those who have mutual love for My Glory’s sake? Today I shall shelter them in My shadow when there is no other shadow but the shadow of Mine.” (Muslim 2566)


person who was a disbeliever and then embraced Islam and now hates to return to disbelief after having embraced Islam.

A person who was a Muslim but used to do many sins and then repented from them and became a good Muslim. And so hates to return doing those sins again.

This hadeeth therefore talks about a person who is righteous and hates actions of disbelief and whatsoever Allah subhanahu wa ta’ala dislikes. For him it is similar to be thrown in fire. Who would like that? It is the sign of true faith and sincere repentance that one hates reverting to their past life. Such a person abstains from falling into sins again and stays away from the wrong company. When a person hates disbelief and displeasing Allah subhanahu wa ta’ala to such an extent, he tastes the sweetness of faith.


If we are not striving against our nafs and still staying in the wrong company, then we need to work on our emaan. The stronger one grows in emaan the more reflective he becomes. He puts the end in mind before starting anything. He does not blindly follow the crowd but also thinks about the rewards and punishments.

This hadith, found in Sahih al-Bukhari, emphasizes three key qualities that contribute to experiencing the true depth and joy of faith. It underscores the importance of having a deep love and reverence for Allah and the Prophet, maintaining sincere love for others solely for the sake of Allah, and having a strong aversion to disbelief, akin to the aversion to being cast into the fire. 


These qualities together enhance and enrich the believer's experience, reflecting a genuine and profound connection to faith.




Friday, 15 March 2024

1-خلاصۃ سورة الفاتحہ

 سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل مکی سورت ہے۔ مفسرین کرام نے اس کے بہت سے نام شمار کرائے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں سورہ فاتحہ کے بائیس نام شمار کرائے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے کثرت الاسماءتدل علی عظمة المسمی کسی چیز کے زیادہ نام اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ سورہ فاتحہ کے بہت سارے نام بھی اس مبارک سورت کی عظمتوں کے غماز ہیں۔اہمیت کے پیش نظر اس سورت کے چند نام ہم ذکر کرتے ہیں۔ اس کا مشہور نام سورة الفاتحہ ہے کیونکہ مصحف عثمانی کی ابتداءاس سورت سے ہوئی ہے۔ نیز نماز کی ابتداءبھی اسی سورت سے ہوتی ہے۔ اس کا نام ام الکتاب بھی ہے جس کا مطلب ہے قرآن کریم کی اساس اور بنیاد۔ قرآن کریم میں بیان کئے جانے والے مضامین و مقاصد کا خلاصہ اس چھوٹی سی سورت میں ذکر کرکے دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ توحید و رسالت، آخرت، احکام شریعت اور قرآنی نظام کے وفاداروں کا قابل رشک انجام.... اور اس کے باغیوں کا عبرتناک انجام یہ وہ پانچ مضامین ہیں جنہیں پورے شرح و بسط کے ساتھ قرآن کریم کی باقی ۳۱۱ سورتوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضامین معجزانہ انداز میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس سورت میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ اسی لئے اس سورت کو ام الکتاب اور اساس القرآن کہا گیا ہے۔ مفسرین کرام نے سورت الفاتحہ کو قرآن کریم کا مقدمہ یا پیش لفظ بھی کہا ہے۔ اس کے مضامین کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہر نماز میں اس کی تلاوت کا حکم دیا تاکہ شب و روز میں کم از کم پانچ مرتبہ پورے قرآن کا خلاصہ ہر مسلمان کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے۔ اس سورت کا ایک نام تعلیم المسئلة ہے کہ اس میں مانگنے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہئے اور کس طرح مانگنا چاہئے۔ یہ سورت الشفاءبھی ہے کہ روحانی و جسمانی امراض کے لئے پیغام شفاءہے۔ سات مرتبہ پڑھ کر دم کرنے سے موت کے علاوہ ہر جسمانی مرض سے صحت حاصل ہوتی ہے اور اس کے مضامین پر عمل کرنے سے روحانی امراض سے شفایابی ہوتی ہے۔

سورہ فاتحہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے تمام کمالات اور خوبیوں کے اعتراف کے لئے حمد کا عنوان اختیار کیا گیا ہے اور تمام کائنات کی ربوبیت کو تسلیم کرنے کے لئے رب العالمین کی صفت کا بیان ہے، کیونکہ رب وہ ہوتا ہے جو کسی چیز کو عدم سے وجود میں لائے اور اس کی زندگی کے ہر مرحلہ میں اس کی تمام ضروریات پوری کرنے اور اس کی تربیت کے تمام وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کائنات کا وجود و عدم اس کی صنعت رحمت کا مرہونِ منت ہے۔ قیامت کے دن انسانی اعمال کی جزاءو سزا کا حتمی فیصلہ کرنے والا مالک و مختار وہی ہے۔ ہر قسم کی وفاداریوں کا مرکز اور مالی و جسمانی عبادات کا مستحق وہی ہے۔ ہر مشکل مرحلہ میں اسی سے مدد طلب کی جانی چاہئے۔ ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی منشاءو مرضی کے مطابق سرانجام دینے کا سلیقہ ہدایت کہلاتا ہے۔ اس لئے بندہ صراط مستقیم کی ہدایت انبیاءو صدیقین و شہداءو صالحین جو اپنے خالق سے وفاداریوں کی بناءپر انعامات کے مستحق قرار پا چکے ہیں ان کے راستہ کی ہدایت، اپنے مالک سے طلب کرتا ہے اور قرآنی نظام کے باغی یہود و نصاریٰ اور ان کے اتحادیوں کے راستہ سے بچنے کی درخواست پیش کرتا ہے اور آخر میں آمین کہہ کر اس عاجزانہ درخواست کی قبولیت کے لئے نیاز مندانہ معروض پیش کرتا ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ بندہ جب سورہ فاتحہ ختم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ”میرے بندے نے مجھ سے جو مانگا، میں نے اسے عطاءکردیا۔“ دوسری حدیث میں ہے کہ ”امام جب نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت ختم کرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ تم بھی آمین کہا کرو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔“

ایک حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”میں نے سورہ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم کرلیا ہے۔ آدھی سورہ فاتحہ میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے۔ جب بندہ الحمدﷲ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حمدنی عبدی میرے بندے نے میری حمد بیان کی جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اثنی علی عبدی میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری عظمت و بزرگی کا اعتراف کیا۔ جب ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا بینی و بین عبدی یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے۔ جب بندہ اہدنا الصراط المستقیم سے آخر تک کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا العبدی والعبدی ماسال یہ میرے بندہ کے لئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ہے میں نے اسے عطاءکردیا ہے۔